کلچر کو ولچر بنانے والے

335

 

 

عوامی زبان میں بات کی جائے تو کلچر بھیڑیے کو بھیڑ اور طمانچے کو تالی بنانے کا نام ہے۔ عسکری صاحب نے اپنے ایک مضمون میں لکھنوی کلچر کے حوالے سے ایک شعر پیش کیا ہے، شعر یہ ہے؂
میری طرف سے صبا کہّیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیرے
اسی شعر کی پشت پر جو ’’تجربہ‘‘ موجود ہے اسے تہذیبی روح کے دائرے سے باہر بیان کیا جاتا تو اس کا بیان اچھی خاصی گالی بن جاتا۔ مگر کلچر کے عمل اور اس قوت نے طعنے نما گالی کو شعر بنادیا۔ فیض کا ایک مشہور زمانہ شعر ہے ؂
اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
یہ ایک سفاک اور غیر انسانی تجربے کا بیان ہے مگر شعر میں ڈھل کر یہ تجربہ تقریباً ’’معصوم‘‘ نظر آرہا ہے۔ محبت اور شاعری انسان کو کس طرح مہذب بناتی ہے اس کا ایک ثبوت میر کا یہ شعر ہے ؂
دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
’’غبارِ میر‘‘ دراصل کلچر دشمن عناصر کا مجموعہ ہے مگر عشق کے تجربے نے غبار میر کو ادب بنادیا ہے۔ مغرب میں کلچر پر جو عمدہ کتب لکھی گئی ہیں ان میں سے ایک کتاب میتھو آرنلڈ کی تصنیف (Culture and Anarchy) یا کلچر اور نراج بھی ہے۔ اسی کتاب میں ایک جگہ آرنلڈ نے کلچر کو Light and Sweetness لکھا بلا شبہ کلچر وہ روشنی ہے جو انسان کے باطن اور اس کے ظاہر کی تاریکی کو نور میں ڈھالتی ہے اور زندگی کی کڑواہٹ کو مٹھاس میں تبدیل کرتی ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں نے کلچر کو Vulture یعنی گدھ بنادیا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے کلچر کو ثقافتی دہشت گردی میں ڈھال دیا ہے۔
نئے سال کے جشن کا ہماری تہذیب اور ہمارے کلچر سے کوئی تعلق ہی نہیں مگر چوں کہ ہمارے حکمران طبقے کا اپنی تہذیب اور اپنے کلچر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اس لیے وہ جس طرح سیاست اور معیشت کے دائرے میں ’’بھیک‘‘ پر گزارا کررہا ہے اس طرح وہ کلچر کے دائرے میں بھی مغرب کی ثقافتی روح کے گرد طواف کررہا ہے۔ یہ ثقافتی روح ہمارے معاشرے میں کیا نتائج پیدا کررہی ہے اس کا اندازہ اس برس نئے سال کے جشن کے حوالے سے سامنے آنے والی تفصیلات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
روزنامہ دنیا کراچی کی 2جنوری 2019ء کی ایک خبر کے مطابق کراچی میں سال نو پر ہونے والی فائرنگ سے بچوں اور خواتین سمیت 27افراد زخمی ہوگئے۔ خبر کے مطابق ہوائی فائرنگ کے واقعات کراچی کے کسی خاص علاقے میں نہیں بلکہ آٹھ دس علاقوں میں رونما ہوئے۔ لاہور آبادی کے لحاظ سے ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ دی نیوز اور ایکسپریس ٹریبیون کی اطلاعات کے مطابق اس سال لاہور میں سال نو کے موقع پر ہونے والی فائرنگ سے ایک بچے اور ایک عورت سمیت کم از کم 34افراد زخمی ہوئے۔ خبر کے مطابق لاہور میں جیسے ہی رات کے 12بجے شہر کی سڑکوں پر من چلوں نے One Wheeling اور لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ خبر کے مطابق پولیس نے اس موقع پر ’’سخت انتظامات‘‘ کررکھے تھے۔ خبر کے مطابق 40افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے 307واقعات درج ہوئے۔ نوجوان اپنی گاڑیوں پر اس زور و شور سے موسیقی سن رہے تھے کہ 6افراد کو Sound System Act کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ نیو ایر نائٹ میں لاہور سے 9شرابیوں اور 6جواریوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔ ایکسپریس ٹریبیون کی اطلاع کے مطابق نئے سال کے موقع پر فیصل آباد میں بھی ’’کلچر‘‘ کے بہت سے مظاہر سامنے آئے چنانچہ 6افراد کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ One Wheeling کے جرم کے باعث 611موٹر سائیکلیں ضبط کرلی گئیں۔
کراچی اور لاہور کے جانی نقصان کو مربوط کرکے دیکھا جائے تو سال نو کے جشن میں بچوں اور خواتین سمیت 61افراد زخمی ہوئے۔ یہ افراد چاکلیٹ یا ٹافیوں سے نہیں گولیوں سے زخمی ہوئے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ کوئی شخص ہلاک نہیں ہوا ورنہ 61افراد کے زخمی ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ دس پندرہ افراد جاں بحق بھی ہوسکتے تھے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ 61افراد کے زخمی ہونے کا ذمے دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب راز نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سال نو کے جشن کی روک تھام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی چنانچہ عمران خان کی وفاقی حکومت اور پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کے خلاف اقدام قتل میں معاونت کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ پاکستان کے تمام ٹیلی ویژن چینلوں نے سال نو کے جشن کو عوام کے حواس پر طاری کرنے میں مرکزی کردار اَدا کیا چنانچہ تمام ٹیلی ویژن چینلوں کے خلاف بھی اقدامِ قتل میں معاونت کے الزام کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ دہشت گردی، دہشت گردی ہے خواہ وہ مذہب کے نام پر ہو یا ریاست اور کلچر کے نام پر۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کسی مذہبی سرگرمی کے دوران کراچی، لاہور اور فیصل آباد فائرنگ سے گونج اٹھتا اور اس کے نتیجے میں 61افراد زخمی ہوجاتے تو اب تک وہ مذہبی سرگرمی دہشت گردی اور اس کے ذمے دار دہشت گرد قرار پا چکے ہوتے اور حکومت بھی اہل مذہب پر چیخ رہی ہوتی۔ نام نہاد ٹیلی ویژن چینلز بھی مذہب اور اہل مذمب کے خلاف ’’ابلاغی بھنگڑا‘‘ ڈال رہے ہوتے۔ نہ صرف یہ بلکہ صورت حال کے ہزاروں ذمے دار اب تک گرفتار ہوچکے ہوتے۔ لیکن نئے سال کے موقع پر ہونے والی ’’ثقافتی دہشت گردی‘‘ کو نہ کوئی دہشت گردی کہہ رہا ہے اور نہ اس کے ذمے دار مطعون کیے جارہے ہیں۔
کلچر کے بارے میں کچھ باتیں سب کو معلوم ہونی چاہئیں۔ کلچر کے بارے میں ایک بات تو یہ ہے کہ کلچر بھیڑیے کو بھیڑ بناتا ہے، بھیڑ کو بھیڑیا نہیں بناتا اور جو کلچر بھیڑ کو بھیڑیا بنائے وہ کلچر، کلچر نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جو کلچر بھیڑیے پیدا نہیں کرتا وہ کلچر ولچر بھی پیدا نہیں کرسکتا۔ لیکن سال نو کا جشن منانے والے ہی نہیں اس کی حمایت کرنے والے بھی ولچر ہیں۔ اس لیے کہ وہ زندہ انسانوں کو زخمیوں اور مردوں میں تبدیل کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ ولچر لاشوں کو نوچتے ہیں اور ہمارے حکمران اور ذرائع ابلاغ لاشوں کو فروخت کرتے ہیں۔
کلچر کے بارے میں ایک بہت ہی موٹی سی بات یہ ہے کہ کلچر کبھی ’’درآمد‘‘ نہیں کیا جاتا اور جو کلچر ’’درآمد‘‘ کیا جائے وہ فیشن اور ثقافتی سازش تو ہوسکتا ہے مگر کلچر نہیں ہوسکتا۔ کلچر ہمیشہ ’’مقامی‘‘ ہوتا ہے۔ اس کی جڑیں مذہب، تاریخ اور زبان میں پیوست ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور ذرائع ابلاغ کلچر بھی درآمد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً ان کی ایک درآمد ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ ہے۔ ایک درآمد “Mother’s Day” ہے۔ ایک درآمد “Father’s Day” ہے۔ ایک درآمد ’’جشن سال نو‘‘ ہے۔ معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت ہماری برآمدات 25ارب ڈالر اور درآمدات 60ارب ڈالر ہیں۔ یہ ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں کی ایک مکمل ناکامی کا منظر ہے۔ بدقسمتی سے کلچر کے دائرے میں بھی ہمارے حکمران بھکاریوں سے بدتر ہیں اس لیے کہ ان کی تہذیبی اور ثقافتی برآمدات صفر ہیں۔ البتہ ان کی تہذیبی اور ثقافتی درآمدات کی تعداد بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ بھی اپنی تہذیب و ثقافت کی برآمد میں رتی برابر دلچسپی نہیں رکھتے البتہ انہوں نے پاکستانی قوم کو ثقافتی درآمدات کے سیلاب میں ڈبو دیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے حکمران اور ذرائع ابلاغ امریکا، یورپ اور بھارت کے ثقافتی ایجنٹوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کے پاس نہ مذہبی عقل ہے نہ سیاسی عقل ہے، نہ معاشی عقل ہے، یہاں تک کہ ان کے پاس ’’ثقافتی عقل‘‘ بھی نہیں ہے۔ ہوتی تو وہ ساری دنیا میں پاکستان کی ثقافت کو پھیلارہے ہوتے۔ اس کے برعکس وہ ساری دنیا کی ثقافت پاکستانی قوم پر مسلط کیے دے رہے ہیں۔ ہمارے پاس کیسی کیسی بے مثال تہذیبی، علمی اور ثقافتی شخصیات ہیں۔ ہمارے پاس اقبال ہیں، مولانا مودودی ہیں، شاہ عبداللطیف بھٹائی ہیں، وارث شاہ ہیں، بابا فرید ہیں، بھلے شاہ ہیں، سچل سرمست ہیں۔ ہم تھوڑا ثقافتی دل بڑا کریں تو ہمارے پاس میر بھی ہیں ا ور غالب بھی۔ ہمارے پاس زبانوں کی تاریخ کا معجزہ یعنی اردو ہے۔ ہمارے حکمران اور ذرائع ابلاغ چاہیں تو پاکستان کے اس بے مثال علمی، تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو پوری دنیا میں عام کرنے کے لیے کوشش کرسکتے ہیں مگر ہم اپنی عظیم شخصیات کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ اقبال مصور پاکستان ہیں، شاعر مشرق ہیں، حکیم الامت ہیں، اقبال اخبارات میں ہیں، اقبال ریڈیو پر ہیں، ٹی وی پر ہیں مگر عملاً اقبال کہیں بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، اقبال کا پیغام عام ہوگیا تو قوم اپنے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ پر تھوک دے گی۔ عبداللطیف بھٹائی سندھ کی عظیم ترین شخصیت ہیں اگر واقعتا شاہ لطیف کے خیالات عام ہوجائیں تو سندھ کے لوگ آصف علی زرداری کیا بھٹو خاندان کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گے۔ چنانچہ پاکستان کے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کو ’’حقیقی کلچر‘‘ کا دس فی صد بھی ’’سوٹ‘‘ نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب کے ’’تھوکے ہوئے‘‘ تہذیبی اور ’’ثقافتی نوالوں‘‘ کو خود بھی چبا رہے ہیں اور معاشرے کو بھی یہ نوالے چبانے پر لگا رہے ہیں۔ تھوکے ہوئے نوالوں کو چبانے میں جو ’’عظمت‘‘ جو ’’تہذیب‘‘ اور جو ’’ثقافت‘‘ ہے وہ ظاہر ہے۔