شکیل جعفری کی ایک آزاد نظم ملاحظہ فرمائیے:
ابھی سوتے رہو بھائی!
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
ابھی بے روزگاری نے
تمہارے در پہ دستک بھی نہیں دی ہے
تمہارے بچے کی بوتل میں ابھی تک دودھ باقی ہے
تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے
تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے
ابھی سوتے رہوبھائی، ابھی سے کیوں پریشاں ہو
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
تمہاری والدہ ہیں محترم اب بھی
انہوں نے آج تک تھانہ نہیں دیکھا
جواں بیٹوں کی خاطر کسی سفاک تھانیدار کے
پاؤں نہیں پکڑے
تمہاری بہن کو اب تک کوئی ’’کاری‘‘ نہیں کہتا
شریک زندگی کے کھلتے چہرے پر
کسی ظالم نے کب تیزاب پھینکا ہے
نہ تمہاری دختر نیک اختر نے
کوئی اجتماعی زیادتی کا کرب جھیلا ہے
ابھی سوتے رہو بھائی!
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
بتاؤ کیاکبھی لخت جگر اغوا ہوئی کوئی
یا کبھی تم سے کسی نے کوئی تاوان مانگا ہے
دھماکے ہوتے رہتے ہیں مگر آج تک اب تک
تمہارا بھائی مسجد سے بخیر وعافیت گھر کو پہنچتا ہے
بھتیجا اب بھی گلیوں میں کرکٹ کھیلا کرتا ہے
ابھی تک تو کسی نے بھی اسے الٹا نہیں ٹانگا
نہ اس کی لاش گلیوں میں گھسیٹی ہے
ابھی سوتے رہو بھائی!
ابھی سے کیوں پریشاں ہو
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
ابھی اس ظلم کے عفریت میں، تم میں ذرا سا فاصلہ ہے
ابھی تم تک پہنچنے میں ذرا سا وقت باقی ہے
ابھی سوتے رہو بھائی، ابھی کچھ دیر باقی ہے
ایک دور تھا جب ایک دوسرے کو دیکھا، سمجھا اور محسوس کیا جاتا تھا۔ زندگیوں کا مقصد محض اپنے بال بچوں کے تنور نہیں تھے۔ بھائی، بہن، ہم جماعت، دوست، ساتھی، رشتوں کے قلعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے تھے، لیکن وہ عہد وہ معاشرہ اب خواب وخیال ہوا اب بتدریج ہم ایک مردہ معاشرے کا روپ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے سے لا تعلق، ایک دوسرے کے دکھ درد سے نا آشنا۔
تجاوزات کے نام پر پورے ملک میں غریبوں کا قتل عام جاری ہے۔ بے وقت موت بے وقت بے روزگاری۔ ہر غریب کے دل میں خوف جانے کب اس کے گھر، اس کی دوکان، اس کے پتھارے، اس کے ٹھیے، اس کی ریڑھی کو مسمار کرکے اس کی جان نکال لی جائے۔ لیکن ہم سب rest in peace کی حالت میں شاداں وفرحاں ہیں کیوں کہ ابھی تک بے روزگاری نے ہمارے در پر دستک نہیں دی ہے۔ ہزاروں لوگ لا پتا ہیں۔ ان کے اہل خانہ در در بھٹک رہے ہیں۔ جگہ جگہ کیمپ لگائے، ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصویر پکڑے ہر چہرے کی طرف بیچارگی سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم انہیں دیکھتے ہیں اور سر سری گزر جاتے ہیں کیوں کہ ابھی ہماری دیواریں نہیں پھاندی گئیں، ہمارے دروازے نہیں توڑے گئے، ہمارا کوئی لا پتا نہیں ہوا۔ ہر شخص تنہا ہے، مظلوم بیٹے پر صرف اس کا باپ مغموم ہے۔
خون اور قانون کے بندھن، رشتے اور رابطے، ہر طرف چھینا جھپٹی، آپو آپی۔ ہر طرف ایک ہی سوچ ہے۔ سب سے بڑا اللہ کا نام، اس کے بعد میرا نام، اس کے بعد بھی میرا نام، اس کے بعد بھی میرا نام، اس کے بعد بھی میرا ہی نام۔۔۔
کوئی میرے باپ کو بالوں سے پکڑے ہوئے ہے، کوئی میری ماں کے گالوں پر طما نچے مار رہا ہے، میری بہن بیٹی کسی کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کررہی ہے، میرے روئیں روئیں میں سوئیاں چبھنے لگتی ہیں میں آگے بڑھتا ہوں لیکن نزدیک جاکر پتا چلتا ہے وہ میرا باپ نہیں، میری ماں نہیں، میری بہن اور بیٹی نہیں، تب میں ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے اوجھل کرکے آگے بڑھ جاتا ہوں۔
رائے ونڈ سے لے کر سرے محل تک، بنی گالہ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک، مذہبی جماعتوں سے لے کر لبرل جماعتوں تک، اس ملک کا کوئی شخص، صدر اور وزیراعظم سے لے کر عام آدمی تک، ارباب اختیار سے لے کر معاشرے کی تمام جہتوں تک، سب اس صورتحال کے ذمے دار ہیں لیکن سب بری الذمہ، سب کے ضمیر منقسم، سب کے ضمیر مطمئن۔ ضمیر نہیں کچرے کا ڈھیر ہیں، غلاظت کی بو ہیں۔ اس مردہ زندگی کو صرف اسلام زندہ کر سکتا ہے، جمہوریت کی تعفن زدہ لاش پر کھڑے ہو کر مدینے جیسی ریاست کے نعرے والا اسلام نہیں۔ میرے آقا محمد ؐ کا اسلام، خلافت راشدہ کا اسلام۔