قرضوں پر سود عوام ادا کریں گے

187

وزیر خزانہ اسد عمر نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک سے پاکستانی زرمبادلہ کو تقویت دینے کے لیے حاصل کی گئی رقوم پر سود ادا کرنا ہوگا جس کے لیے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے ۔ ہم بار بار اس امر پر اصرار کررہے ہیں کہ قوم کو اندھیرے میں نہ رکھاجائے ۔ جس وقت کوئی ڈیل ہورہی ہوتی ہے ، اُس زمانے میں ہر سرکاری نمائندہ بڑھ چڑھ کر صرف خوبصورت تصویر پیش کررہا ہوتا ہے اور اسے اپنے کریڈٹ پر لیتا ہے ۔ یہ تو بہت بعد میں پتا چلتا ہے کہ قوم کے ساتھ کیا ہاتھ ہوا ہے ۔ ایسے خوفناک انکشافات روز ہورہے ہیں ۔ بدھ ہی کو عدالت عظمیٰ میں انکشاف کیا گیا کہ نجی شعبے میں قائم بجلی گھروں سے نہ صرف انتہائی مہنگے داموں بجلی خریدی جارہی ہے بلکہ ان پاور ہاؤسوں کی استعداد کے مطابق حکومت انہیں ادائیگی کرنے کی پابند ہے ۔ یہ ادائیگی بجلی خریدنے سے مشروط نہیں ہے ۔ یعنی حکومت بجلی خریدے یا نہ خریدے ، ان بجلی گھروں کو ادائیگی کی جارہی ہے ۔ اسی طرح سی پیک منصوبے کے تحت حاصل کیے گئے قرضوں کی صورتحال ہے ۔ شروع میں تو یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کی سب چینی امداد ہے ۔ یعنی چین پاکستانی حکومت پر مہربانی کرتے ہوئے مفت میں ہی سب کچھ کررہا ہے ۔ ہم شروع سے ہی اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ یہ امداد نہیں ہے بلکہ انتہائی بلند شرح سود پر حاصل کیے گئے قرضے ہیں ۔ اب بتایا جارہا ہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک نے یہ قرضے بطور امداد نہیں دیے ہیں بلکہ ان پر سود ادا کرنا پڑے گا ۔ بہتر تھا کہ اسد عمر ان قرضوں پر شرح سود بھی بتا دیتے ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت کے پاس صرف دو ہی وظیفے ہیں ۔ ایک سیاسی مخالفین کے ساتھ پنجہ آزمائی اور دوسری قرضوں کا حصول ۔ حکومت کا بنیادی وظیفہ ملک کو استحکام دینا ہے ۔ یہ استحکام ہر معنیٰ میں ہے ، سیاسی بھی ، معاشی بھی اور دفاعی بھی ۔ مگر حالات یہ ہیں کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال روز بد تر ہوتی جارہی ہے ۔ معاشی صورتحال اب تو بدترین کے زمرے میں پہنچ گئی ہے ۔ ادارے حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں ۔ سوئی سدرن گیس اور سوئی ناردرن گیس ، حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔ بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والی کمپنیاں پہلے سے ہی خودسری کا شکار ہیں ۔ لے دے کر عوام ہی بچے ہیں جن پر کسا ہوا شکنجہ روز مزید کس دیا جاتا ہے ۔ یہی صورتحال دیگر اداروں کی ہے ۔ انتظامی معاملات عملی طور عدلیہ کے ہاتھوں میں جاچکے ہیں ۔ اسے نرم سے نرم الفاظ میں حکومت کی ناکامی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ جب حکمراں اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہوچکے ہیں تو اس کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی کیوں نہیں ہوجاتے ۔ سب سے اہم مسئلہ معیشت کا ہے ۔ ملک میں معاشی استحکام کیوں کر آسکتا ہے جب شرح سود بلند ہوچکی ہو، بچت ہونا تو درکنار اب روز کے اخراجات پورے کرنا ہی مشکل ہوگئے ہوں ، صنعتی یونٹ روز بندش کا شکار ہورہے ہوں ، بے روزگاری کا عفریت ہر ایک کو نگل رہا ہو، رہے سہے کاروبار کو تجاوزات کے نام پر ختم کرنے کی مہم جاری ہو۔ ایسے میں معاشی سرگرمیاں کسی دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتی ہیں ۔