توہین یا عزت افزائی

161

چیئرمین نیب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ ’’اپوزیشن لیڈر نیب کا سامنا کر سکتا ہے تو وزیراعظم کیوں نہیں، یہ ان کی توہین نہیں عزت افزائی ہے۔ وہ بہت سادہ لوگ ہیں جنہوں نے اسے وزیراعظم کی توہین قرار دیا ہے، کسی سے جرم ہوا ہے تو نیب کو تفتیش سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘ جسٹس جاوید عمرانی حکومت کے ترجمان فواد چودھری کی جانب سے وزیراعظم پر نیب کیس کو ان کی توہین قرار دینے پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔ ہمارے خیال میں جسٹس جاوید اقبال کو فواد چودھری کی بات پر کان دھرنے اور اپنا ردعمل دینے کی ضرورت نہیں تھی اور آئندہ بھی ان کے تبصروں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ جہاں تک وزیراعظم کے قانون سے بالاتر ہونے کا سوال ہے تو یہ خود عمران خان کے دعووں کے برعکس ہے جو کہا کرتے تھے کہ قانون سب کے لیے ایک ہونا چاہیے اور اس میں چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں یہ بات اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھا دینی چاہیے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ عمران خان نے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ فواد چودھری تو اسلامی تاریخ کا علم نہیں رکھتے ورنہ معلوم ہوتا کہ بڑے بڑے با جبروت حکمران قاضی کی عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ چلیے، اس کو بھی چھوڑیے، حکمرانوں کے پسندیدہ ملک امریکا میں بھی صدر کو عدالت میں پیش ہونا اور ایک صدر کو واٹر گیٹ اسکینڈل سامنے آنے پر مستعفی ہونا پڑا لیکن کسی نے نہیں کہا کہ یہ تو حکومت کی توہین ہوگئی اور پوری دنیا اس پر ہنس رہی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کی یہ بات صحیح ہے کہ جب قائد حزب اختلاف نیب کا سامنا کرسکتا ہے تو وزیراعظم کیوں نہیں۔ جمہوری پارلیمانی روایات میں حزب اختلاف ’’گورنمنٹ ان ویٹنگ‘‘ کہلاتی ہے یعنی ممکنہ اگلی حکومت۔ فواد چودھری ابھی حکومت میں نئے نئے ہیں، انہیں جمہوری روایات کا ادارک کرنے میں وقت لگے گا لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سیکھنے، سکھانے میں 5 برس گزر جائیں۔ فواد چودھری اس پر برہم تھے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس چلانے کی جرأت کیسے کر رہا ہے، یہ تو سربراہ حکومت کی توہین ہے بلکہ پورے نظام کی توہین ہے اور دنیا نیب کی اس کارروائی پر ہنس رہی ہے۔ لیکن دنیا تو اس پر ہنس رہی ہے کہ تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ قانون کی نگاہ میں حکمران اور عوام، امیر و غریب، طاقت ور اور کمزور سب برابر ہیں۔ لیکن اس عدم مساوات کا ثبوت اعظم خان سواتی کے معاملے میں بھی سامنے آگیا تھا جب انہی فواد چودھری نے کہا تھا کہ ہم نے الیکشن اس لیے تو نہیں جیتا کہ کسی کا تبادلہ بھی نہ کر سکیں اور اعظم سواتی کی جھوٹی شکایت پر آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ کردیا گیا۔ اس چھوٹی سی مثال سے ظاہر ہے کہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آنے کے بعد کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان ہیلی کاپٹر کیس میں نیب کے سامنے پیش ہو کر ایک روشن مثال قائم کرتے اور عمل سے ثابت کرتے کہ حکمران اور عام آدمی برابر ہیں۔ ہیلی کاپٹر کیس میں بھی فواد چودھری ایسی تاویلات پیش کررہے ہیں جو قابل قبول نہیں۔ یہ تو بہت سیدھا سا معاملہ ہے۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے خیبرپختونخوا کی حکومت کے دو ہیلی کاپٹر 74 گھنٹے تک غیر سرکاری دوروں کے لیے استعمال کیے اور ان کا کرایہ اوسطاً فی گھنٹہ 28 ہزار روپے ادا کیے جب کہ خیبرپختونخوا کے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر 2 لاکھ روپے فی گھنٹہ خرچ آتا ہے۔ اس حساب سے عمران خان کو اپنی صوبائی حکومت کو ایک کروڑ 11 لاکھ روپے ادا کرنا چاہییں تھے مگر انہوں نے صرف 21 لاکھ روپے ادا کیے۔ عمران خان کے حواریوں کو چاہیے کہ تاویلات پیش کرنے کے بجائے چندہ کرکے یہ رقم ادا کردیں اور نیب سے عمران خان کی جان چھڑائیں۔ تحریک انصاف کا اے ٹی ایم کہلانے والوں کے لیے یہ کام مشکل نہیں اور جسٹس جاوید اقبال کے بقول نیب کارروائی سے وزیراعظم کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ فواد چودھری نے یہ تاثر دیا ہے کہ مذکورہ ہیلی کاپٹر صوبائی حکومت استعمال کررہی تھی، عمران خان تو ساتھ ہو لیے تھے۔ ایسا ہے تو پھر فی گھنٹہ 28 ہزار روپے بھی کیوں ادا کیے؟