یہ حیران کن بات تو نہیں کہ قاضی صاحب کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اقبال کی یاد آئے اور اقبالؔ کو پڑھتے ہوئے قاضی صاحب یاد آئیں۔ شاید میرے علاوہ دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہو۔ علامہ محمد اقبالؔ کے قلم سے لکھا ’’پیام مشرق‘‘ کا دیباچہ پڑھتے ہوئے مجھے قاضی حسین احمد بہت یاد آئے۔ اقبال پیام مشرق کے دیباچہ میں لکھتے ہیں ’’مشرق بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے مگر اقوام مشرق کو یہ بات محسوس کرلینا چاہیے کہ زندگی اپنے احوال میں اس وقت تک کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کرسکتی جب تک کہ پہلے اُس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب برپا نہ ہو‘‘۔
فطرت کا یہ اٹل قانون ہے جس کو قرآن نے سادہ اور بلیغ انداز میں بیان کیا ہے۔ ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں تبدیل کرتا جب تک کے وہ خود اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتی۔ (سورہ رعد) قاضی حسین احمد اپنی پوری زندگی یہ پیغام دیتے رہے اقبال کے کلام کے جیسے حافظ وہ تھے اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ فارسی زبان کے اشعار ان کے پرجوش لب و لہجہ میں سنے والا زبان نہ جاننے کے باوجود مطلب و مفہوم سمجھ جاتا تھا۔ ہمیں بھی اقبال کے فارسی کلام کا شوق اُن کی زبان سے فارسی کلام سن سن کر ہوا۔ اقبال کہتے ہیں،
پیچ میدانی کہ روزے در وُلر
موج می گفت یا موج دگر
چند در قلزم بیک دیگر زنیم
خیر تایک دم بساحل سر زینیم
یعنی کہ ایک روز جھیل ولر میں ایک لہر نے دوسری لہر سے کہا کہ کب تک ہم پانی کے اندر ایک دوسرے سے ٹکراتی اور سرمارتی رہیں گی، آجا کچھ دیر کے لیے پانی کے اندر سر ٹکرانے کے بجائے ساحل کے ساتھ سر ٹکرائیں۔ قاضی صاحب اُمت کو یہ پیغام اپنی تقریروں کے ذریعے دیتے رہے۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے انتہائی عرق ریزی سے تمام مکتب فکر کو یکجا کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کو فعال کیا، تمام فرقوں کو متحد رہ کر دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کی سرکوبی کے لیے اکٹھا رہنے کا پیغام دیا، ملت کے اتحاد کے لیے آخری وقت تک کوشاں رہے۔ اقبال کہتے ہیں،
ہزار انجمن آرا ستند و برچیرند
دریں سراجہ کہ روشن زمشعل قمراست
زخاک خویش بہ تعمیر آدمی بر خیز
کہ فرصتِ تو بقدر تبسم شرد است
کہ اس چھوٹے سے گھر یعنی دنیا میں جو چاند کی مشعل سے روشن ہے ہزاروں محفلیں آراستہ ہوئیں اور اُجڑ گئیں، یعنی دنیا کی کسی بھی شئے کو دوام ثبات نہیں ہے، یہ زندگی بھی عارضی اور فانی ہے، لہٰذا پھر مٹی سے ایک انسان کی تعمیر کے لیے اُٹھ اس لیے کہ تجھے جو فرصت میسر ہے وہ چنگاری کی مسکراہٹ جتنی ہے۔ لہٰذا اپنی خودی پہچان اور ایک باعمل انسان بن جا کہ اس فانی دنیا کا ایک ایک لمحہ بڑا قیمتی ہے۔ اسے ضائع نہ کر اور اپنی بقا کا سامان کرنے کے لیے جدوجہد سے کام لے۔قاضی صاحب نے کبھی کسی لمحہ بھی مقصد زندگی کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ ہر لمحہ آبلہ پائی کے لیے تیار رہے پھر نہ صرف خود بلکہ ہر ایک کو اپنے ساتھ متحرک رکھتے۔ ہر لمحہ ہر آن بہتر تبدیلی کے لیے مضطرب۔۔۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے ان کا درد دل کبھی فارغ نہ بٹھاتا۔ افق تا افق نیل کے ساحل سے تابخاک کا شعر تک ان کی جہد مسلسل جاری تھی۔
اتحاد امت کی آرزو انہیں بے چین رکھتی، ہر مسلک اور فرقے کے دروازے پر انہوں نے دستک دی، اُن کے درمیان اختلافات کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں، اُس میں کامیابی حاصل کی، ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل کی، خواہش تھی کہ اختلافات کا خاتمہ ہو، شدت پسندی کے بجائے اسلام کا روشن چہرہ سامنے آئے، اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ اُن کی جدوجہد کو اُن کے ناقدین نے بھی سراہا۔ مختلف مکاتب فکر کو مسلسل بات چیت، ملاقاتوں اور رابطوں کے ذریعے ایک میز پر بٹھایا۔ اپنی رخصتی سے ایک سال قبل ملت کی یک جانی کے لیے ایک شاندار اور پُروقار بین الاقوامی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کی۔ جس میں عالم اسلام کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ وہ عالم سیاست میں محبت و اخوت کا مشفق باب تھے، افغانستان، ترکی، ایران، عالم عرب کے رہنما مشاورت و رہنمائی کے لیے اُن سے رجوع کرتے تھے، انہوں نے عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں میں اختلافات ختم کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کیں۔ سوڈان میں اسلامی تحریک کے بانی ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر مملکت جنرل محمد حسن البشیرکے درمیان صلح کا معاہدہ کرایا۔ عراق، کویت، فلسطین، بوسنیا، کوسوا، چیچنیا، برما، اریٹیریا میں مسلم کشی کے خلاف آواز اٹھائی، مسلم امہ کے مصائب دور کرنے کا حل یک جائی اور اتحاد بتایا اور اس کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ حق گوئی کے لیے جیل کاٹی، دل کے مریض تھے لیکن سڑک پر لاٹھیاں کھائیں، صعوبتیں سہیں۔ رسول اللہ کی شان میں گستاخی پر مبنی خاکوں پر احتجاج کرنے کی پاداش میں گرفتار ہوئے۔ جیل میں دوران گرفتاری قلم کو علَم بنایا، متعدد مقالے تحریر کیے۔ وہ پوری قوم کے لیے شفقت اور محبت کا سمندر تھے، پاکیزہ اور بے داغ کردار، بہادری اور جرأت کا پیکر تھے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقبال کے مومن کی یہ وہ تعریف تھی جس پر قاضی صاحب پورے اُترتے تھے۔ وہ اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ ’’ہر مسلمان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے، وہ اپنے رب کا سامنا ایسی صورت میں کرے کہ رب کی رضا اس کے ساتھ ہو اور وہ جنت میں داخل ہوجائے۔ رب کی رضا اس میں ہے کہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا جائے، نیکی کا حکم دیا جائے اور بدی سے روکا جائے۔ یقیناًہر مسلمان کی زندگی کا مقصد یہی ہونا چاہیے۔