اور اب چین بھی

222

سابق امیر جماعت اسلامی، قاضی حسین احمد، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی قبر کو سدا پُر نور رکھے، ایک ٹی وی پروگرام میں مدعو تھے۔ میزبان نے ترش لہجے میں سوال کیا ’’عالم اسلام میں کہیں کوئی بھی مصیبت آتی ہے جماعت اسلامی احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پرنکل آتی ہے۔کیا سارے جہاں کا درد آپ ہی کے جگر میں ہے؟‘‘ قاضی صاحب نے سوال میں پوشیدہ طنز کی کاٹ کو گھاس کی پتی کے برابر وقعت نہ دیتے ہوئے اپنے مخصوص پشتو لہجے میں اونچی آواز میں جواب دیا ’’ہاں، ہاں سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔‘‘ قاضی صاحب کا جواب برائے جواب نہیں ایک حقیقت تھا۔ ایک وقت تھا دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمان ظلم کا شکار ہوتے، ان پر کوئی مصیبت آتی، آفت ٹوٹتی، پورا عالم اسلام تڑپ اٹھتا تھا۔ نظرآنے لگتا تھا یہ امت واحدہ ہے، محمد بن قاسم کی روایت کی علمبردار۔ ترکی میں خلافت کے خاتمے پر مسلم ہندوستان میں تحریک خلافت میں لوگوں کا جوش وخروش، 1969ء مسجد اقصیٰ کی آتش زدگی پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم وغصہ، اس واقعے کے رد عمل میں تمام مسلم ممالک کے سربراہان کا مراکش کے شہر رباط میں جمع ہونا، اسلامی ممالک کی تنظیم قائم کرنا۔ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد، امت کے مسائل پر مشترکہ موقف اور جدوجہد کی کوششیں۔ فلسطین کی آزادی سے تمام مسلمانوں کا بلند آہنگ تعلق، قلبی ربط، یاسر عرفات کو ایک ہیرو کا مقام دینا، اس کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کرنا۔ اہل کشمیر سے اسلامی ممالک کی تنظیم کا بار بار اظہار یکجہتی، بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی پر عالم اسلام کا اضطراب، فکر مندی اور تڑپ۔ افغانستان کے مسلمان سوویت یونین کے ظلم کا نشانہ بنے تو پاکستان، سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کا ان کی مدد کو آنا۔
نائن الیون کے بعد دنیا تبدیل ہوئی تو جیسے اسلامی ممالک کی یکجہتی، درد والم کے مشترکہ رشتے، سب کچھ ہم کہیں رکھ کر بھول گئے۔ امریکا اور مغربی دنیا نے مل کر دنیا کے غریب اور کمزور ترین اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کیا تو کسی جانب سے ادنیٰ سی مزاحمت تو درکنار ایک آواز بھی احتجاج کے لیے بلند نہیں ہوئی۔ ستم در ستم پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک اپنے ہی بھائیوں کے قتل عام میں امریکا اور اتحادیوں کے مددگاربن گئے۔ افغانستان پر حملے کرنے کے لیے اپنی سرزمین امریکا کے سپرد کردی۔ امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو عالم اسلام تماشائی بنا ایک اسلامی ملک کی تباہی کے مناظر دیکھتا رہا۔ امریکا نے ایک خوشحال اسلامی ملک کو برباد کرکے رکھ دیا۔ صدام حسین کی پھانسی کا منظر ایک دلچسپ فلم کے انداز میں دیکھا گیا۔ ایک عرصے سے شام بشار الاسد، امریکا، روس، اسرائیل اور نہ جانے کون کون سی طاقتوں کے نشانے پر ہے۔ ممنوع کیمیائی ہتھیار، کلسٹر بم، پٹرول بم، میزائل، بے حدو حساب ہوائی حملے اور دنیا کے مہلک ترین اسلحے کا اہل شام پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اسکولوں اور اسپتالوں، بچوں اور عورتوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے، لاکھوں مسلمان دنیا میں در در پناہ کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے ہیں لیکن ہماری بے حسی اس طرف اک نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی روادار نہیں۔ روہنگیا کے مسلمانوں کی بستیاں جلا کر راکھ کردی گئیں۔ اقوام متحدہ جیسا بے حس ادارہ بھی چیخ اٹھا کہ روہنگیا کے مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ہیں لیکن کسی مسلمان ملک کو میانمر کی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ اسرائیل جب چاہتا ہے اہل غزہ کا دانہ پانی بند کرکے، ان پر گولیوں، میزائلوں اور ہوائی حملوں کا منہ کھول دیتا ہے، اہل غزہ بلی، کتے کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن مسلم ممالک کی ہمدردیاں فلو ٹیلا کی ڈارامے بازی سے آگے نہیں بڑھتی۔ رہا کشمیر تو غزہ کی طرح اب وہ کسی مسلم ملک کا مسئلہ نہیں رہا۔ بھارتی افواج نے اہل کشمیر پر آتش اور آہن کی بارش کررکھی ہے، ہزاروں عورتوں نے بیوگی کی سیاہ چادر کو لباس بنالیا ہے، پیلٹ گنوں کے چھروں سے ہمارے بیٹے، ہمارے بھائی بینائی سے محروم ہورہے ہیں۔ لاکھوں آوازیں درد وکرب سے بلند ہیں، ہر روز تابوت اٹھ رہے ہیں، بڑے بڑے جنازے نکل رہے ہیں ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عزت جنگی اسٹرٹیجی کے طور پر پامال کی جارہی ہے لیکن چند سو گز کے فاصلے پر موجود ان کے بہادر مسلمان سپاہی، دنیا کی واحد ایٹمی قوت کی طاقتور سپاہ یہ سب کچھ یوں لا تعلقی سے دیکھ رہی ہے جیسے یہ ان کے مسلمان بہن بھائی نہیں، جیسے یہ ان کے پیکر کا حصہ نہیں، یہ ان کا درد والم نہیں۔ اس بے حسی اور لا تعلقی کو ہمارے حکمران ’’جنگ مسئلہ کشمیر کا حل نہیں‘‘۔ ’’کشمیر کا مسئلہ صرف مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے‘‘ جیسے بے غیرتی پر مبنی بیانات سے پر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور بس۔
تمام اسلامی ممالک اپنا اپنا دامن بچانے میں مصروف ہیں۔ اس کوشش میں وہ سب امریکا، روس، اسرائیل، بھارت اور اسلام کے دشمنوں کے کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کے حکمران امریکا کی خوشنودی میں اپنی بقا دیکھ رہے ہیں، درپردہ سب کے اسرائیل سے مضبوط تعلقات ہیں۔ بھارت ہر اسلامی ملک کی آنکھ کا تارا ہے۔ معمولی اختلافات کی وجہ سے اکثر اسلامی ممالک نے اپنے وسائل، اپنی طاقت اسلام دشمن قوتوں کے منصوبوں اور عزائم کی تکمیل کے لیے وقف کردیے ہیں۔ یوں اپنے آپ کو بچانے کی کوششوں میں سب یکے بعد دیگرے اسلام دشمن قوتوں کا نوالہ بن رہے ہیں۔ امت مسلمہ کے بجائے فلسطین کو پہلے اہل عرب کا مسئلہ قرار دیا گیا۔ پھر اسے فلسطینیوں کا معاملہ قرار دیا گیا۔ اب اسے محض انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دے کر بیان کیا جاتا ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی کوبھی جو امت مسلمہ کا مسئلہ تھا پہلے پاکستان اور ہندوستان کا معاملہ باور کرایا گیا پھر اہل کشمیر کا اور اب یہ صرف انسانی حقو ق کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں بھی اسے
زیادہ تر انسانی حقوق کا معاملہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلم دشمنی کے حوالے سے اب تک یہود ونصاری، امریکا، روس، مغرب، اسرائیل اور ہندوستان کا نام لیا جاتا تھا اب اس فہرست میں چین کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
چین سے ایسی اطلاعات آرہی ہیں جن میں چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگرمسلم فرقوں کے دس لاکھ افراد کو حراست میں رکھا جارہا ہے۔ ری ایجوکیشن یعنی از سر نو تعلیم کے نام پر انہیں اسلام سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 7جنوری 2019 کو چین کے مرکزی انگریزی اخبارگلوبل ٹائمز میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں چین میں موجود مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ ’’وہ چینی طور طریقے اختیار کریں، سیاسی بیانیہ بہتر کریں‘‘۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اسلام کو چینی طور طریقوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے چین بہت جلد ایک خاکہ جاری کرے گا۔ اس خاکے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’بنیادی سوشلسٹ اقدار، قوانین اور روایات کی تربیت فراہم کرنے کے ساتھ مثبت جذبات کی حامل کہانیوں سے مسلمانوں کی رہنمائی کرنا۔‘‘ یوں چین ایک سوشلسٹ اسلام تخلیق کرنے اور اسے بزور چینی مسلمانوں کی زندگیوں میں داخل کرنے کی راہ پر ہے اور اس کے لیے وہ ہر ہتھکنڈا آزمارہا ہے۔
چین میں طویل عرصے سے چینی حکام مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ چین کی حکومت نے لاکھوں مسلمانوں کو قید کر رکھا ہے۔ بیڑیوں سے باندھ کر ان کے منہ میں سیمنٹ بھرا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ مسلمان خواتین کو بچے پیدا کرنے سے روکا جارہا ہے۔ مردوں کو آپریشن کے ذریعے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کیا جارہا ہے۔ مسلما نوں کے گھروں میں چینی جاسوس تعینات کیے جارہے ہیں جو دن رات مسلم گھرانوں کے ساتھ رہ کر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ مسلمان اسلامی احکامات پر عمل نہ کریں اور عمل کرنے کی صورت میں حکومت کو مطلع کیا جاسکے اور حکومت ان مسلمانوں کے خلاف حرکت میں آسکے۔
(جاری ہے)