خطِ کتاب سے نیچے زندگی بسر کرنے والا معاشرہ 

455

اقبال نے آج سے تقریباً سو سال پہلے مسلمانوں سے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا ؂
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
اس شعر میں جس المیے کا بیان ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان صرف کتاب پڑھنے والے رہ گئے ہیں انہوں نے کتابیں تخلیق کرنا چھوڑ دیا ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب و تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال کا یہ شعر امت مسلمہ کے شعور کے زوال کی ایک داستان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ایک طویل مدت تک صاحب کتاب تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب ’’الکتاب‘‘ کی تہذیب ہے۔ اور جو تہذیب الکتاب کی ہو اس میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کا حساب کتاب ہونا قرین قیاس ہے۔ لیکن اگر ہم اقبال کے زمانے کا موازنہ عصر حاضر سے کریں تو مسلمانوں کے شعور کے زوال نے مزید کئی مراحل طے کر لیے ہیں۔ اقبال کا شکوہ تھا کہ مسلمان صرف کتابیں پڑھتے ہیں کتابیں لکھتے نہیں ہیں۔ مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے کتابیں پڑھنے والے بھی کمیاب ہو گئے ہیں۔ کتاب ہمارے ہاتھ سے غائب ہوئی تو ایک ایسا معاشرہ سامنے آیا جسے ہم اخبار پڑھنے والا معاشرہ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اب اخبار پڑھنے والے بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ اب ہمارا معاشرہ فلمیں، ڈرامے اور ٹاک شوز دیکھنے والوں کا معاشرہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اقبال کا زمانہ ’’عہد زریں‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ اس لیے کہ اس زمانے میں لوگ کم ازکم کتاب پڑھ تو رہے تھے۔
ہماری دنیا معاشیات کی دنیا ہے۔ یہ دنیا معاشی اصطلاحوں میں کلام کرتی ہے۔ ان اصطلاحوں میں سے ایک اصطلاح فی کس آمدنی ہے اور فی کس آمدنی کی بنیاد پر کچھ معاشرے امیر ہیں اور کچھ معاشرے غریب۔ غربت کے دائرے میں موجود لوگوں کے درمیان بھی آمدنی کے اعتبار سے فرق ہے۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو ’’خطِ غربت‘‘ سے اوپر زندگی بسر کرتے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ’’خطِ غربت‘‘ سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس تناظر میں کتاب کو معیار بنایا جائے تو ہمارا معاشرہ ’’خطِ کتاب‘‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا معاشرہ ہے۔ کہنے کو ہماری آبادی 22 کروڑ ہے مگر ہمارے معاشرے میں 22 لاکھ لوگ بھی کتاب پڑھنے والے نہیں ہیں۔ بلکہ اب تو شاید ملک میں اخبار پڑھنے والوں کی تعداد بھی 22 لاکھ نہیں ہو گی۔ حالات یہی رہے تو ہمارا معاشرہ ’’خطِ اخبار‘‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے والا معاشرہ بن جائے گا بلکہ کیا خبر ہمارا معاشرہ اس وقت بھی ’’خطِ اخبار‘‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے والا معاشرہ ہو۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمیں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہوئے تو شرم آتی ہے مگر ’’خطِ کتاب‘‘ اور ’’خطِ اخبار‘‘ سے نیچے زندگی بسر کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ صرف ملک کے عوام ’’خطِ کتاب اور خطِ اخبار‘‘ سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم ملک کے اکثر سیاسی رہنماؤں کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ارے یہ تو ’’خطِ کتاب‘‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کی گفتگو ہے۔ تو خطِ اخبار سے نیچے پڑے ہوئے شخص کا بیان ہے۔ بدقسمتی سے جن لوگوں کا کام ہی شعور کی آبیاری ہے۔ ان کی بڑی تعداد بھی ’’خطِ کتاب‘‘ سے نیچے زندگی بسر کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مثلاً صحافی۔ مثلاً اساتذہ۔
سوال یہ ہے کہ مسلمان ایک زمانہ میں ’’صاحب کتاب‘‘ کیوں ہوتے تھے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ وہ الکتاب کو پڑھنے والے، الکتاب کو سمجھنے والے اور الکتاب کو بسر کرنے والے تھے۔ الکتاب تو بڑی چیز ہے عام انسانوں کی لکھی ہوئی بڑی کتاب بھی آدمی سمجھ کر پڑھ لے اور اس پر عمل کرنے لگے تو ایک عام کتاب بھی انسان کو کتاب لکھنے والا بنا سکتی ہے۔ اس حوالے سے سلیم احمد نے ایک گفتگو میں بہت اہم بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب حقیقت سے انسان کا تعلق Action میں Turn ہوتا ہے تو وہ ’’ہیرو‘‘ پیدا کرتا ہے اور جب حقیقت سے تعلق Emotions میں Turn ہوتا تو وہ ’’آرٹسٹ‘‘ پیدا کرتا ہے۔ یہ بات درست ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس کوئی ’’حقیقت‘‘ ہو اور اس حقیقت سے اس کا تعلق اتنا سچا اور اتنا گہرا ہو کہ وہ تعلق قوت عمل یا جذبات کو متحرک کر سکتا ہو۔ مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کتاب کیا الکتاب سے بھی اس طرح وابستہ نہیں جس طرح اس سے وابستہ ہونے کا حق ہے۔ یہ مسئلہ بھی بہت بڑا ہے کہ اب کسی بھی چیز سے ہمارا گہرا تعلق نہیں ہوتا۔ ہم محبت کے دائرے ہی میں ’’فلرٹ‘‘ نہیں کرتے ہم علم اور مذہب تک سے فلرٹ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے ؂
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
سوال یہ ہے کہ وہ آدمی کہاں ہے جو خدا کے آگے سر جھکا کر کسی اور کے آگے سر نہیں جھکاتا؟ ہمارے سامنے تو یہ منظر ہے کہ خدا کے آگے سرجھکانے والے بھی کہیں طاقت کے سامنے سرجھکائے کھڑے ہیں۔ کہیں مال و دولت کے آگے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔ کہیں معاشرے کے جبر کے آگے سرجھکائے ایستادہ ہیں۔ کہیں اپنی انا کے آگے سرجھکائے لیٹے ہیں۔ معاف کیجیے گا لیٹ جانے کے بعد سرجھکانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی مگر آپ انسان کی ’’فنکارانہ‘‘ صلاحیتوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ بعض لوگ لیٹ کر بھی سرجھکانے کی ایکٹنگ کر سکتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر دائرے میں فلرٹ کے عادی ہو چکے ہیں۔ چنانچہ کوئی مشاہدہ، کوئی تجربہ اور کوئی علم ہماری قوت عمل کو متحرک کر کے ہمیں ’’ہیرو‘‘ بننے دیتا ہے نہ ہمارے جذبات کو متحرک کر کے ہمیں ’’آرٹسٹ‘‘ میں ڈھلنے دیتا ہے۔ ہم کتاب لکھیں تو کیسے؟
لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر ہم پڑھتے کیوں نہیں؟ یہ سوال ایسا ہی ہے جسے کوئی پوچھے کہ آخر ہم کھاتے کیوں نہیں؟ بسا اوقات انسان اتنا بیمار ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز کھانے کی خواہش ہی باقی نہیں رہتی۔ اس کی بھوک مر جاتی ہے۔ جس طرح انسان کا جسم غذا کا محتاج ہے اسی طرح ہمارا ذہن بھی غذا کا محتاج ہے لیکن جس طرح جسم بیمار ہو کر غذا سے تکردّ محسوس کرنے لگتا ہے اس طرح ذہن بیمار ہو کر مطالعے سے بھاگنے لگتا ہے۔ امام غزالی نے کہیں فرمایا ہے کہ اگر انسان تین دن مطالعہ نہ کرے تو اس کا ذہن مرنے لگتا ہے۔ ظاہر ہے کے اگر مطالعے سے تین دن محروم رہ کر ذہن پر مردنی چھانے لگتی ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تین یا تیرہ سال مطالعے سے دور رہ کر ذہن کا کیا حال ہو جاتا ہو گا؟ مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نہ ذہن کی بیماری کو پہچانتے ہیں نہ ہمیں ذہن کی موت کا شعور ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمیں ساری زندگی مطالعے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس نہیں ہو پاتا۔ لیکن یہاں ہم ایک بار پھر اس سوال کی جانب لوٹتے ہیں کے لوگ کتاب کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے؟
کتاب کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کی عظیم اکثریت کو کبھی معلوم ہی نہیں ہو پاتا کتاب کا مطالعہ انسان کے لیے کتنا اہم ہے؟ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عادتوں کا اسیر ہوتا ہے۔ اگر انسان کو بچپن ہی سے کتاب کے مطالعے کی عادت ہو جائے تو وہ نوجوانی اور بڑھاپے میں بھی کتاب سے تعلق استوار رکھے گا۔ لیکن اگر کتاب بچپن میں انسان کی زندگی کا حصہ نہ بن سکے تو پھر اسے کتاب کے مطالعے کی جانب راغب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر ہمیں معاشرے میں کتاب کے مطالعے کو عام کرنا ہے تو پھر ہمیں اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے کتاب کے مطالعے کا ’’عادی‘‘ بنانا ہو گا۔ لیکن کتاب سے گریز کا مسئلہ اتنا سیدھا سادا نہیں۔ کتاب انسان کو زندگی کے ٹھوس معنی سے آشنا کرتی ہے اور انسان زندگی کے معنی سے آشنا ہو جاتا ہے تو پھر معنی کا شعور اس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو بدلے اور Transform ہو کر دکھائے۔ اتفاق سے یہاں ایک بار پھر عادت کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ انسان زندگی کی جس طرز یا Pattern کا عادی ہو جاتا ہے اس کو بدلنا تکلیف دہ ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ انقلاب کا نعرہ لگانے والے بھی خود اپنے اندر انقلاب برپا نہیں کر پاتے۔ کتاب انسان کو سنجیدگی کی طرف بھی مائل کرتی ہے مگر انسان سنجیدگی سے خوف کھاتا ہے اس لیے کہ سنجیدگی انسان کو اقدار مرکز یا Value centric اور باطن مرکز بناتی ہے۔ اقدار اور باطن سے وابستگی ایک نظم و ضبط ہے جس کی پاسداری آسان نہیں۔ چنانچہ انسانوں کی اکثریت لاشعوری طور پر کتابوں کے مطالعے سے گریزاں رہتی ہے۔ کتابوں کا مطالعہ کرنے والوں کی بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو مطالعے کو بھی ایک ’’تعیش‘‘ بنا لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ ساری عمر کتابوں کی محبت میں بسر کرنے کے باوجود کبھی اقبال کے معنی میں ’’صاحب کتاب‘‘ نہیں بن پاتے۔
کتاب اور اخبار کے مطالعے میں وہی فرق ہے جو بادام اور مونگ پھلی کھانے میں ہے۔ کتاب بادام کی طرح ہے اور اخبار مونگ پھلی کی طرح۔ ہمارے زمانے میں فلموں اور ڈراموں کے مواد کا غالب حصہ کاٹھ کباڑ کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے عہد میں بدذوقی عام ہو گئی ہے چنانچہ بادام کی طرف کوئی دیکھتا ہی نہیں۔ بلکہ اب تو اخبار یعنی مونگ پھلی کی طرف دیکھنے والے بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ جس طرف نظر اٹھا کر دیکھیے لوگ فلموں اور ڈراموں کا کاٹھ کباڑ نوش جان کر رہے ہیں۔ بلکہ اب تو ٹی وی کے ٹاک شوز بھی ڈراموں کی طرح مقبول ہو گئے ہیں۔ حالاں کہ ہمارے ٹاک شوز تو چیونگم کی طرح ہیں۔ ان میں غذائیت کیا ذائقہ تک نہیں ہے۔
ضرورت اور مجبوری کی بات اور ہے ورنہ جو شخص ٹاک شوز کو “Enjoy” کرتا ہوا پایا جائے سمجھ لیں اس کی نفسیات اور اس کی ذہنی ساخت میں کوئی بڑا نقص ہے۔ ان باتوں سے آپ یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ ہماری نئی نسل فلمیں اور ڈرامے توجہ سے دیکھ رہی ہے۔ کسی زمانہ میں ہمیں کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ میں ایم اے کی سطح کے طلبہ کو ایک سمسٹر پڑھانے کا موقع ملا تھا۔ دوچار دن تو طالب علم خاموش رہے مگر پھر انہوں نے شکایت کی کہ ہم ان سے بہت مشکل موضوعات پر مضامین لکھوا رہے ہیں۔ ہم نے پوچھا آسان موضوع کسے کہتے ہیں؟ کئی طلبہ نے بہ آواز بلند کہا کہ آپ ہم سے فلموں پرکچھ لکھوائیے۔ ہم نے کہا اچھا آپ فلمیں بہت دیکھتے ہیں۔ کہنے لگے جی سر۔ ہم نے عرض کیا کہ اب آپ اپنی پسندیدہ ترین فلم پر پچاس منٹ میں ایک ایسا مضمون لکھ کر دکھائیے جسے پڑھ کر ہم بھی آپ کی پسندیدہ فلم دیکھنے کی خواہش کریں۔ ساری کلاس اپنی پسندیدہ فلم پر مضمون لکھنے لگی لیکن طلبہ و طالبات کے مضامین پڑھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری نئی نسل کو تو فلم کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ یہاں تک کہ اکثر طلبہ اپنی پسندیدہ فلم کی تلخیص بھی ڈھنگ سے نہ کرپائے۔ صرف تین طالب علموں نے اچھے مضامین لکھے مگر ان تینوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ بچپن سے کتابوں کے مطالعے کے عادی تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فلم کو بھی ٹھیک طرح وہی جان سکتا ہے جو کتاب پڑھنے کا عادی ہے۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو ہمیں اس دن سے ڈرنا چاہیے جب ہمارا معاشرہ خطِ کتاب اور خطِ اخبار کیا ’’خطِ فلم‘‘ سے بھی نیچے جا کھڑا ہو۔