سی ٹی ڈی ہی کو اے کلاس کردیں

95

انسداد دہشت گردی کے محکمے عرف سی ٹی ڈی نے کراچی میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے کو اے کلاس کرنے کی درخواست کی ہے ۔ جب چینی قونصلیٹ پر حملہ ہوا تھا تو اس کے فوری بعد ہی انسداد دہشت گردی کے محکمے نے کئی افراد کی فوری گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ لوگ اس حملے میں سہولت کار تھے ۔ گزشتہ برس 23 نومبر کو چینی قونصلیٹ پر صبح کے وقت تین افراد نے حملہ کیا تھا ۔ اس واقعے میں تینوں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے ان کے علاوہ وہاں پر تعینات دو اہلکاروں کے علاوہ ویزے کے لیے کوئٹہ سے آئے ہوئے دو باپ بیٹے بھی جاں بحق ہوئے تھے ۔کراچی پولیس کے چیف ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے اس سے اگلے ہی روز ایک پریس بریفنگ میں پانچ ملزمان کی گرفتاری کا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دہشت گردوں کے سہولت کار تھے ۔ اب کہا جارہا ہے کہ سی ٹی ڈی کے پاس اصل ملزمان تک کوئی پہنچ نہیں ہے اس لیے مقدمہ کو اے کلاس قرار دے کر اس کی تفتیش ہی بند کردی جائے ۔ جن پانچ ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا ، انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ان کی پیشی کے موقع پر چینی قونصلیٹ پر حملے کا معاملہ ہی سی ٹی ڈی گول کرگئی اور ریمانڈ ناجائز اسلحے کے الزام میں لیا گیا ہے ۔ اس ایک کیس سے ہی سی ٹی ڈی کی کارکردگی کو جانچا جاسکتا ہے ۔ اس بات کا کئی بار انکشاف ہوچکا ہے کہ کراچی سے سی ٹی ڈی کے اہلکار نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ ان نوجوانوں کی گرفتاری کہیں پر ظاہر نہیں کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے ۔ راؤ انوار اور چودھری اسلم کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل میں بھی ان ہی نوجوانوں کو قتل کرنے کے الزامات رہے ہیں ۔ بہتر ہے کہ اس قانون پر سختی سے عمل کیا جائے کہ جس نوجوان کو بھی اٹھایا جائے اسے عدالت میں ضرور پیش کیا جائے ۔ عدالت میں پیش کیے بغیر نوجوانوں کو حراست میں رکھنے کا مطلب اغوا ہی ہے ۔ یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ ان نوجوانوں کی اکثریت کو بھاری رقم کے عوض رہا کیا جاتا ہے اور جو لوگ ان اہلکاروں کو مطلوبہ رشوت نہیں کر پاتے ، وہ نقیب کی طرح جان سے جاتے ہیں ۔ایسے ادارے ہی کو اے کلاس کردینا چاہیے۔ ویسے کارکردگی کا آپریشن کریں تو یہ ادارہ تھرڈ کلاس نکلے گا۔ درجنوں کیسز ایسے ہی نکلیں گے جن میں رپورٹس کا سر پیر نہیں ہوتا۔