احکامات کا جمعہ بازار

143

 

 

رجسٹرار لاہور کورٹ کی جانب سے پنجاب کے تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ خصوصی افراد کے کوٹے پر سختی سے عمل کیا جائے، خصوصی افراد کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں اور یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ خصوصی افراد سے بد تمیزی کرنے یا ان کا مذاق اڑانے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ نجی اور سرکاری اداروں میں انہیں خاص اہمیت دی جائے اور عدالتوں میں زیر التوا مقدمات ہنگامی بنیادوں پر سماعت کرکے فوری فیصلے صادر کیے جائیں۔
سوال یہ ہے کہ خصوصی افراد کے زیر التوا مقدمات کو ہنگامی بنیادوں پر سماعت کرکے فوری فیصلے کا نوٹی فیکیشن کیوں جاری کیا گیا ہے؟جلد انصاف کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے خواہ وہ عام آدمی ہو، خاص آدمی ہو یا خصوصی فرد ہو انصاف سب کے لیے ہوتا ہے یا خصوصی فرد کے لیے مختص کرنا نا انصافی کو فروغ دینے کے مترادف ہے اور اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ نظام عدل کے کرتا دھرتا احکامات جاری کرکے بھول جاتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ حکمران اور عدلیہ کے سربراہان قانون سازی کرنے یا قانون پر عمل در آمد کرانے کے بجائے یہ ’’کردو، وہ کردو‘‘ کا ساز ہی بجاتے رہتے ہیں۔ ساز کوئی بھی ہو تھوڑے وقت کے لیے دل چسپی کا باعث بنتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہدایات اور احکامات سر پر سے گزر جاتے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف نے خصوصی افراد کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے تو پنجاب کے چیف نے گھریلو ملازمین کے لیے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2018ء تیار کرلیا جس کے تحت گھریلو ملازمین سے آٹھ گھنٹے سے زائد کام لینے والوں کو اوور ٹائم دینا پڑے گا۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو پانچ سے دس ہزار روپے جرمانہ دینا ہوگا۔ معاملہ زیادہ سنگین ہوا تو چھ ماہ قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ گھروں میں کام کرنے والے افراد کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ گھریلوملازمین کو سرکاری چھٹیوں کے علاوہ عید، بقر عید اور دیگر چھٹیاں بھی دی جائیں گی۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ اکتالیس پوائنٹ پر مشتمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایکٹ وضع کرنے والوں نے دکانوں پر کام کرنے والوں کو کیوں نظر انداز کردیا۔ حالانکہ ایسے ملازمین کو تحفظ کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ دکانوں پر کام کرنے والوں کو بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور تن خواہ کے نام پر چند ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ ان بے چاروں کو سرکاری چھٹی بھی نہیں دی جاتی۔ گھروں پر کام کرنے والے منہ مانگی اجرت لیتے ہیں مثلاً کپڑوں کی دھلائی کی اجرت الگ ہے کھانا پکانے اور بچوں کو کھلانے کی اجرت الگ ہے برتن دھونے کی اجرت الگ ہے اگر ماہانہ تن خواہ پر معاہدہ ہو تو مقررہ اجرت دی جاتی ہے اور پھر یہ ملازمین مرضی کے مالک ہوتے ہیں جب جی چاہا چھٹی کرلی جب جی چاہا پیسے مانگ لیے بعض گھریلو ملازمین عورتیں بچوں اور شوہروں کے لیے کھانا بھی لے جاتی ہیں۔ پرانے کپڑوں پر بھی اپنا حق جتاتی ہیں در اصل گھریلو ملازمین کا کوئی خاص مسئلہ ہی نہیں ہے اصل پریشانی تو دکانوں اور دفاترمیں کام کرنے والے ملازمین کی ہے مگر نان ایشوز پر وقت برباد کرنے والوں کو اس کا احساس ہی نہیں۔