اسلام ایفائے عہد کی تعلیم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے (1): ’’اور وعدے کی پاسداری کرو، بے شک وعدے کے بارے میں باز پرس ہوگی، (بنی اسرائیل: 34)‘‘، (2) سورۂ بقرہ، آیت: 177 میں نیکی کی جامع خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جب وہ عہد کرلیں، تو اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں‘‘۔ (3) اسی طرح سورۂ المؤمنون میں فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی متعدد صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہد کی پاسداری کرنے والے ہیں، (المومنون: 8)‘‘۔
عہدِ رسالت مآب ؐ میں مشرکین سے کھلی جنگ تھی، اس دوران رسول اللہ ؐ نے اُن سے معاہدات بھی کیے، وہ معاہداتِ بینَ الاقوام تھے۔ اُن میں سے ایک معاہدۂ حدیبیہ تھا، جس کی بعض شرائط پر صحابہ کرام کو اضطراب بھی تھا، لیکن رسول اللہ ؐ نے اُن شرائط کی پاسداری کی، معاہدۂ حدیبیہ میں ایک تکلیف دہ شرط یہ تھی: ’’قریش کا جو فرد اپنے ولی کی اجازت کے بغیر سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کے پاس آئے گا، اگرچہ وہ دینِ محمد پر ہو، اُسے واپس اُس کے ولی کے پاس لوٹا دیا جائے گا اور جس شخص نے محمد رسول اللہ ؐ کی اتباع کی ہو، اگر وہ قریش کے پاس آئے گا، تو قریش اُسے واپس نہیں لوٹائیں گے‘‘۔
ابھی معاہدے پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ابوجَندَل مسلمانوں کے پاس پہنچے، اُن کے باپ سہیل نے انہیں بیڑیاں پہنا کر قید کر رکھا تھا، وہ قید خانے سے نکل کر بچتے بچاتے حدیبیہ پہنچے۔ مسلمان اُن کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے ہوئے، جب اُن کے باپ نے انہیں دیکھا تو اٹھ کر انہیں لاٹھیوں سے مارنے لگا اور گلے سے پکڑکر کہا: اے محمد! میں یہ پہلا مقدمہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اِسے واپس لوٹا دیجیے۔ رسول اللہ ؐ نے اس انتہائی تکلیف دِہ صورتِ حال میں فرمایا: ’’ہم عہد شکنی نہیں کریں گے‘‘، اس دوران صحابہ ابوجندل کو پناہ دے چکے تھے، ابوجندل نے کہا: میں مسلمان ہوکر آیا ہوں، کیا اب مجھے بے یارومددگار کر کے مشرکوں کی طرف لوٹادیا جائے گا، یہ اذیت ناک لمحہ تھا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اے ابوجندل! صبر کرو، اجر پاؤ گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمام بے بس لوگوں کے لیے مشکل سے نجات کی صورت مقدر فرمائے گا۔ ہم نے ایک قوم سے معاہدہ کرکے شرائط طے کرلی ہیں، ہم دھوکا نہیں دیں گے، (سبل الھدیٰ والرشاد)‘‘۔ الغرض رسول اللہ ؐ نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو نہ توڑا، پھر مشرکوں نے عہد شکنی میں پہل کی تو رسول اللہ ؐ نے پہلے اُن کو وارننگ دی اور فرمایا: اب ہم پر اس عہد کی پاسداری لازم نہیں رہی اور آپ فتحِ مکہ کے سفر پر روانہ ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تاریخی فتح عطا فرمائی، اس کا ذکر قرآنِ کریم میں موجود ہے۔
نوہجری کو حج فرض ہوا، مسلمان سیدنا ابوبکر صدیق کی امارت میں حج کے لیے مکۂ مکرمہ تشریف لائے۔ پھر سیدنا علی رسول اللہ ؐ کے نمائندۂ خاص کے طور پر سورۂ برأت کی ابتدائی آیات کا اعلامیہ جاری کرنے کے لیے آئے اور میدانِ عرفات سے تاجدارِ ختمِ نبوت ؐ کی طرف سے یہ اعلامیہ جاری ہوا:
’’اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں سے بے زاری کا اعلان ہے، جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا، سو (اے مشرکو!) اب تم چار ماہ چل پھر لو اور یقین رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حجِ اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے اعلانِ عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بریُ الذّمہ ہیں‘‘، پھر آگے چل کر فرمایا: ’’ماسوا اُن مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا، پھر انہوں نے (اُس عہد کی پاسداری میں) تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، سو اُن سے کیے گئے معاہدے کی مدت پوری کرو، بے شک اللہ تعالیٰ متقین کو پسند فرماتا ہے، (التوبہ: 1-4)‘‘۔ واضح رہے کہ ایک ایسے وقت میں جب مسلمان فتحِ مکہ کے بعد مکمل طور پر غالب آچکے تھے اور مخالفین نیست ونابود ہوچکے تھے، قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ یک طرفہ طور پر معاہدے کو نہ توڑا جائے۔ آج صدرِ امریکا عالمی معاہدات کو یک طرفہ طور پر توڑ رہے ہیں، یہ قانون کی بے حرمتی اور اخلاقی زوال کی انتہا ہے۔
اندازہ لگائیے کہ حالتِ جنگ میں بھی اسلام نے عہد کی پاسداری کی تعلیم دی اور رسول اللہ ؐ نے معاہداتِ بینَ الاقوام کے ایفا کی شاندار روایات قائم فرمائیں۔ پس جو دین حالتِ جنگ میں بھی عہد شکنی کی اجازت نہ دے، وہ حالتِ امن میں اِسے کیسے گوارا کرسکتا ہے۔ یہ تمہیدی کلمات میں نے اس لیے لکھے کہ بلوچستان میں رکوڈک کے سونے کے ذخائر کے بارے میں غیرملکی کمپنی ٹیتھان سے معاہدہ ہوا تھا، لیکن عدالت عظمیٰ کی مداخلت کی بنا پر وہ معاہدہ منسوخ کرنا پڑا۔ حال ہی میں عالمی عدالت نے یک طرفہ طور پر معاہدہ توڑنے کی بنا پر پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کیا ہے۔ یہ صورتِ حال ہمیں اس لیے پیش آتی ہے کہ ہماری حکومتیں عالمی معاہدات کرتے وقت انتہائی عجلت میں ہوتی ہیں اور قانونِ بین الاقوام کے ماہرین سے اُن معاہدات کی شرائط کا تجزیہ نہیں کراتیں اور اُس کے نتیجے میں وہ معاہدے گلے کا طوق بن جاتے ہیں۔
یہی غفلت انتہائی منفعت بخش ادارے پی ٹی سی ایل کی نج کاری کے موقع پر ہوئی۔ اتصالات سے معاہدہ کرکے 26فی صد کی ادائیگی پر پورا انتظامی کنٹرول انہیں دے دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے وعدہ کیا کہ پی ٹی سی ایل اپنی تمام املاک کی ملکیت اور قبضہ اتصالات کے حوالے کرے گی۔ ہمارے ہاں سرکاری املاک سے ناجائز قبضے واگزار کرنا دشوار ہوتا ہے، کیوں کہ قابضین کی طرف سے مزاحمت پر حکومت کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اب حکومت بے بس ہے، اتصالات نے تقریباً 80کروڑ ڈالرکے بقایا جات ادا نہیں کیے، پاکستانی کرنسی میں اس کی موجودہ مالیت تقریباً ایک سو دس ارب روپے ہے، وہ اِس عرصے میں بے تحاشا نفع کماکر لے گئے، پی ٹی سی ایل کے ڈویژنل دفاتر میں کیا کرّوفر ہوتا تھا، جب کہ آج یہ دفاتر یتیم خانے کا منظر پیش کر رہے ہیں، سنا ہے کئی عالی شان دفاتر کو کرائے پر دے کر پی ٹی سی ایل کے بعض دفاتر کو فلیٹس میں منتقل کردیا گیا ہے۔
اسی طرح پاکستان اسٹیل کی نج کاری اکیس ارب میں ہونا قرار پائی تھی، مگر عدالت عظمیٰ نے اِسے روک دیا، اس کے بعد پاکستان اسٹیل ملز ایک مفلوج ادارہ بن چکا ہے اور اب تک دسیوں ارب روپے تنخواہوں کی مد میں سرکاری خزانے سے ادا کیے جاچکے ہیں۔ لیکن اگر وہ نج کاری ہوچکی ہوتی، تو پاکستان اسٹیل کی کھربوں روپے کی زمینی جائداد خریدار کمپنی کے ہاتھ آجاتی اور وہ اُسے اوپن مارکیٹ میں بیچ کر غائب ہوجاتے، نج کاری کے بعد کئی صنعتوں کا یہ حشر ہوا۔
پراپرٹی ڈِوَلپر جب کوئی ہاؤسنگ اسکیم لانچ کرتے ہیں، تو ماحول انتہائی زرق برق، لش پَش اور چکاچوند سے معمور ہوتا ہے۔ پلاٹوں یا فلیٹوں کے خریدار معاہدۂ خریداری کی دستاویز کو پڑھے اور سمجھے بغیر دستخط کردیتے ہیں اور جب وہ قسطیں ادا نہیں کرپاتے اور معاہدۂ خریداری کو منسوخ کرنے کے لیے ڈِوَلپر سے رابطہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ساری شرائط ڈویلپر کے حق میں ہیں، وہ چند قسطیں ادانہ کرنے پر یک طرفہ طور پر معاہدہ منسوخ کرکے ادا کردہ اقساط کو ضبط کرلیتا ہے، خریدار کے حقوق کے تحفظ کی کوئی شِق اُس معاہدے میں نہیں ہوتی، لیکن: ’’اب پچھتائے کیا ہووَت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کا منظر ہوتا ہے، یہی حال ہمارے نظامِ حکومت کا ہے۔
چند سال پہلے ایک کانفرنس میں قانونِ بین الاقوام کے ماہر جناب احمر بلال صوفی نے ہمیں بتایا تھا کہ پاکستان پر تقریباً نو ہزار ملکی اور تیرہ ہزار بین الاقوامی قوانین حاکم ہیں۔ جب عالَمی اداروں میں یہ قوانین بن رہے ہوتے ہیں، تو وہاں ہماری نمائندگی نہیں ہوتی یا جو نمائندہ بن کر جاتے ہیں، وہ ان بے رونق اجلاسوں میں شرکت کے بجائے سیر وتفریح کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بیدار مغز قوموں کے نمائندے قانون کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک شق پر طویل بحثیں کرتے ہیں۔ اِسی صورتِ حال کا سامنا ہمیں ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے میں درپیش ہے، ہندوستان معاہدے میں خلا سے فائدہ اٹھا کر ڈیم پہ ڈیم تعمیر کررہا ہے، اس کے نتیجے میں پاکستان خطرناک حد تک قلتِ آب کے خطرے سے دوچار ہے، پاکستان کو عالمی عدالت سے کوئی تحفظ نہیں مل رہا، کیوں کہ معاہدہ کرتے وقت ہم نے اُس کی شقوں کا بغور جائزہ نہیں لیا تھا اور قانونِ بینَ الاقوام کے ماہرین سے رہنمائی حاصل نہیں کی تھی، جس کا خمیازہ ہمیں اب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح سی پیک سے متعلق معاہدات کا بھی کسی کو علم نہیں ہے، حالاں کہ یہ معاہدات اشخاص کے درمیان نہیں ہوتے، بلکہ اقوام اور ممالک کے درمیان ہوتے ہیں، ایل این جی کا معاہدہ بھی مستور ہے۔
ہمارے سِول حکمران دباؤ پر خصوصی فوجی عدالتوں کے حق میں تو آئینی ترامیم منظور کرلیتے ہیں، لیکن از خود کوئی ایسی آئینی ترمیم اتفاقِ رائے سے لانے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہمارے عالمی معاہدات کا طریقۂ کار کیا ہو، ملکی اور قومی مفادات کا تحفظ کس طرح کیا جائے اور اس کے لیے آئینی اور قانونی چیک لسٹ کیا ہونی چاہیے۔ ماضی کی تلافی تو اب ممکن نہیں ہے، لیکن آئندہ کے لیے ہمیں کوئی پیش بندی ضرور کرنی چاہیے۔