گزشتہ برس کی حیرت انگیز ایجادات

775

ہر گزرتا سال کچھ نئی کہانیاں، یادیں، کچھ خوشی اور غم کی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ جس طرح ہر فرد ہر نئے سال کے آغاز پر نئے اہداف طے کرتا ہے، نئی کام یابیوں کے لیے دعا گو ہوتا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں پھیلے ٹیکنالوجی کے ماہرین اور سائنس دانوں کے ذہن میں نئے سال کے لیے کچھ نئی ایجادات ہوتی ہیں، جن کی بنا پر وہ انسانیت کی خدمت کرسکیں اور ان جیسے لوگوں کی بدولت ہی ہر سال دنیا بھر میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں کسی نئی ایجاد کی بدولت کوئی سہولت پیدا ہوجاتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں سال گزشتہ میں ہونے والی کچھ ایسی ہی ایجادات کا ذکر ہے جس نے ایک عام آدمی سے لے کر خلانوردوں تک لیے اپنے دروازے وا کر دیے ہیں۔
تھری ڈی میٹل پرنٹنگ
سہہ جہتی پرنٹنگ کا استعمال گزشتہ ایک دہائی میں کافی عام ہوچکا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی سے صرف پلاسٹک کی اشیا پرنٹ کی جاسکتی تھیں۔ دھاتی پرزوں کو پرنٹر کی مدد سے اس کی حقیقی شکل میں ڈھالنا اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کئی سال سے ایک معما بنا ہوا تھا۔ اور اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکا کی لارنس لیور مور نیشنل لیبارٹری کے محققین نے ایسے سہ جہتی پرنٹر کی تخلیق پر کام شروع کیا جو روایتی طریقوں کے برعکس زیادہ تعداد اور زیادہ مضبوط اسٹین لیس اسٹیل کے پارٹس بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس بابت محققین کا کہنا ہے کہ دھاتی پرزوں کو مطلوبہ شکل میں ڈھالنے کے روایتی طریقوں میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے ، ہم گزشتہ تین برس سے دھاتی تھری ڈی پرنٹر کی تخلیق میں لگے ہوئے تھے۔
گزشتہ سال لارنس لیور نیشنل دھاتی اشیا کو پرنٹ کرنے والا پرنٹر نمائش میں پیش کیا، جب کہ اس سے قبل دھاتی پرزے اور دیگر اشیا بنانے والی امریکی کمپنی مارک فورجڈ کے بانی گریک مارک نے بوسٹن میں دھاتی پرزوں کی سہ جہتی پرنٹنگ کے لیے ایک چھوٹے سے اسٹارٹ اپ کی بنیاد رکھی اور چند ماہ کی محنت کے بعد دسمبر 2017ء میں انہوں نے دنیا کا پہلا تھری ڈی میٹل پرنٹر مارکیٹ میں پیش کردیا۔ 2018ء میں بوسٹن کے ہی ایک اور اسٹارٹ اپ ’ڈیسک ٹاپ میٹل‘ نے بھی اپنا پہلا پروٹوٹائپ دھاتی پرنٹر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس پرنٹر کو خصوصی طور پر بڑا دھاتی سامان بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جو کہ روایتی دھاتی سامان بنانے والے طریقوں سے سو گنا زیادہ تیز رفتار ہے۔
مصنوعی جنین (ایمبریوز)
کائنات کی تخلیق سے بنی نوع انسان کی کھوج لگانے کی فطری جبلت نے اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیا۔ کبھی وہ کائنات کے سربستہ راز کھوجنے کے لیے خلاؤں کا سفر طے کرتا ہے، تو کبھی سمندروں کی تہہ میں جاکر کچھ نہ کچھ ڈھونڈتا رہتا ہے۔ اسی جبلت کے تحت انسان نے کلوننگ جیسے تجربے کیے ہیں تو کبھی وہ انسانی جسم کے سب سے پیچیدہ نظام ڈی این اے میں ترمیم کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ انسان کی سیلانی فطرت نے ’کرائے کی کوکھ‘ جیسے طریقے کو بھی جنم دیا، جو اب ایک منظم کاروبار بن کر لاکھوں خواتین کو ماں بننے کے لطیف احساس سے محروم کر رہا ہے۔
اس تحقیق کی سربراہ اور یونیورسٹی آف کیمبرج کی ماہر حیاتیات اور اسٹیم سیل کا دنیائے طب میں ہونے والی اس نئی جدت کے حوالے سے کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے ہم نے ایک نئی زندگی کی تخلیق کا کام یاب تجربہ کیا ہے۔ یہ اسٹیم سیل ایک دوسرے چوہے کے جنین سے لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ فی الوقت یہ مصنوعی جنین لیباریٹری میں بڑھوتری کر رہا ہے اور ہمیں امید ہے کہ جلد ہی ہم ممالیہ جان داروں میں بچے کی پیدائش کے اہل ہوں گے۔ اگلے مرحلے میں ہم انسانی اسٹیم سیل کی مدد سے مصنوعی جنین کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت سے لیس مائیکرواسکوپ روبوٹ
پینے کے صاف پانی کی قلت ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق 2025ء تک دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پانی کی قلت سے متاثر ہوسکتی ہے۔ صاف پانی کے کم ہوتے ذخائر کو مد نظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی آئی ٹی کمپنی آئی بی ایم نے مصنوعی ذہانت سے لیس ایسے خودمختار روبوٹکس کیمرے ایجاد کیے ہیں جو نکاسی آب کی تنگ سے تنگ لائن میں جا کر اس کی صفائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’فائیو فار فائیو‘ نامی یہ کیمرے مصنوعی ذہانت کی بنا پر پانی میں شامل آلودہ اجسام، کیمیکل، پلاسٹک کی شناخت اور ان کے درست مقام کی نشان دہی کرنے کے ساتھ پانی کے درجۂ حرارت سے بھی آگاہ کرسکتے ہیں۔ اس بارے میں آئی بی ایم کے نائب صدر اور لیب ڈائریکٹر جیف ویلسر کا کہنا ہے کہ ان جدید کیمروں کی مدد سے دنیا بھر میں پانی کی آلودگی کے سدباب میں کافی پیش رفت ہوگی۔
مریخ پر کامیاب لینڈنگ
چاند پر قدم رکھنے کے بعد سے دنیا بھر کے خلانوردوں کی اولین ترجیح سرخ سیارے (مریخ) کو تسخیر کرنا تھا۔ اس عظیم مشن کے لیے کئی تجربات کیے گئے لیکن 2018ء کے آخری چند ماہ اس مشن کے لیے بہت اچھے رہے اور ناسا کی جانب سے بھیجا گیا روبوٹ ’ان سائٹ ‘ (انٹریئر ایکپلوریشن یوزنگ سیسمک انویسٹی گیشنز گیوڈیسے اینڈ ہیٹ ٹرانسپورٹ )کام یابی کے ساتھ مریخ پر اتر گیا۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے منتظم اعلیٰ جمیز براڈسٹائن کا کہنا ہے کہ یہ خلائی تحقیق کے میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ ان سائٹ نے زمین سے 12ہزار 3سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے مریخ کے ہموار مقام الیسیئم پلینیشا پر لینڈ کیا جو کہ سیارے کی سطح مرتفع کے قریب ہے۔ ناسا کے مطابق اس مقام کو سرخ سیارے کی سب سے بڑی پارکنگ کہا جاتا ہے۔
ان سائٹ نے مریخ پر اترنے کے چند منٹ بعد ہی سرخ سیارے کے قدرتی مناظر کی دھندلی اور پہلی تصویر زمین پر ارسال کی جو کہ خلائی گاڑی کے اندر نصب کیمرے سے لی گئی تھی۔ جمیز کے مطابق ان سائٹ کے سیارے پر لینڈ کرنے کی وجہ سے اڑنے والی گرد کے نتیجے میں پہلی تصویر زیادہ واضح نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مریخ پر خلائی گاڑیوں کی لینڈنگ کے ماضی کے تجربات کی وجہ سے ان سائٹ کے حوالے سے تشویش پائی جارہی تھی کیوںکہ یہ 2012ء کے بعد مریخ پر اترنے والا پہلا روبوٹ تھا۔ لینڈ کرتے وقت ان سائٹ نے ہر مرحلے کی تفصیلات زمین پر بھیجیں۔ اس کی رفتار کے بارے میں جیمز کا کہنا ہے کہ ان سائٹ کو مریخ کے انتہائی سرد موسم میں اپنی بقا کے لیے اپنے سولر پینلز کھولنے کے لیے مکمل طور پر توانائی پیدا کرنے والے نظام کو چلانا ہوگا۔ ماضی کے برعکس اس بار سرخ سیارے پر بھیجے جانے والے روبوٹ ان سائٹ کے ساتھ بریف کیس سائز کے دو مصنوعی سیارے بھی مریخ بھیجے گئے ہیں۔
ان سائٹ کو رواں سال امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ہوائی اڈے سے مریخ کے سفر پر بھیجا گیا تھا۔ اِن سائٹ نے جس جگہ لینڈ کیا ہے وہ مریخ کے شمال میں موجود میدانی علاقے اور جنوب میں واقع سطح مرتفع کے درمیان کی سطح پر گیل کریٹر کے نزدیک ہے، جہاں ناسا کا خلائی جہازلینڈ روور کیوروسٹی بھی تحقیق میں مصروف ہے۔ ان سائٹ کو اپنے آلات کی مکمل تنصیب میں دو ماہ کا عرصہ لگے گا، یہ سب سے پہلے اپنا ایک بازو انتہائی احتیاط کے ساتھ سیسمو میٹرز کو سیارے کی سطح پر رکھے گا جس سے سطح کے نیچے موجود تہہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں گی۔ ان سائٹ سرخ سیارے کے ارضیاتی طور پر فعال ہونے کی جانچ بھی کرے گا۔ اس مقصد کے لیے ان سائٹ پر ایچ پی 3 نام کا ایک آلہ نصب کیا گیا ہے ۔ یہ روبوٹ اس بات کی بھی تحقیق کرے گا کہ آیا مریخ کا اندرونی ڈھانچا زمین کے اندرونی ڈھانچے سے مماثلت رکھتا ہے یا نہیں اور سرخ سیارے کے اندرونی ڈھانچے سے کتنی توانائی خارج کی جارہی ہے۔
سینسنگ سٹی
گوگل کی ذیلی کمپنی الفا بیٹ نے کینیڈین شہر ٹورنٹو کے مضافات میں ایک ایسا ڈیجیٹل شہر بسانے کے پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے، جہاں بسنے والے اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی سے مستفید ہو سکیں گے۔ امریکی شہر نیویارک میں واقع الفا بییٹ کی سائیڈ واک لیب میں کینیڈین حکومت کے اشتراک سے اس ہائی ٹیک منصوبے Quayside پر کام کیا جا رہا ہے ۔ دنیا کے پہلے ڈیجیٹل سینسنگ شہر کے منصوبے کی سربراہی کرنے والے سائنس داں رٹ اگر والا کا کہنا ہے کہ اس پورے شہر کو جدید سینسرز سے آراستہ کیا جائے گا جو ہر لمحے ، لوگوں کی سرگرمیوں سے لے کر ہوا اور شور کی آلودگی تک کو مانیٹر کریں گی۔ تمام گاڑیاں خود مختار اور یکساں طور پر سب کے لیے ہوں گی۔ ڈاک کی ترسیل سے گھر کے کام کاج تک کے افعال روبوٹ سر انجام دیں گے۔ پورے شہر میں پھیلے سینسرز اور جدید تکنیکی آلات کی بدولت سینسنگ سٹی میں رہنے والا ہر فرد جب، جس وقت چاہے اپنی مطلوبہ خدمت گھر بیٹھے حاصل کر سکے گا۔
شمسی توانائی سے چلنے والا پہلا جہاز
طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے گزشتہ سال اگست میں Zephyr S HAPS کے نام سے شمسی توانائی سے چلنے والا جہاز کی کام یاب پرواز کی۔ اس جہاز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ شمسی توانائی سے چلنے والے دیگر جہازوں کے برعکس رات میں بھی سفر کرسکتا ہے۔ امریکی ریاست ایری زونا سے اڑان بھرنے والے اس جہاز نے آزمائشی پرواز میں 70ہزار فٹ بلندی تک ہموار پرواز کی ۔ سورج کی روشنی سے چلنے سے والے اس جہاز کے پروں کا پھیلاؤ 82فٹ ہے جس پر 165پاؤنڈ وزنی سولر پینلز لگائے گئے ہیں۔ بوئنگ کے ترجمان کے مطابق جدید پاور مینجمنٹ سسٹم کی بدولت یہ خراب موسم میں بھی بیٹری کو گرم ہونے سے محفوظ رکھتا ہے جس سے اس کی چارجنگ زیادہ دیر تک چلتی ہے۔
انسانی جذبات کی پہچان کرنے والا روبوٹ
’ہیلو، میرا نام پیپر ہے۔ میں ایک انسانی روبوٹ ہوں۔ میری عمر 4سال ہے۔ میں آپ کو اشیا اور دیگر خدمات کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرسکتی ہوں۔‘ یہ بات کسی انسان نے نہیں بلکہ سڈنی کی یونیورسٹی میں ہونے والی آئیڈیاز 2018ء میں پیش کیے گئے دنیا کے پہلے انسانی جذبات کی شناخت کرنے والے روبوٹ ’پیپر‘ نے کی۔ اس روبوٹ کے موجد ڈاکٹر عمر مبین اور منیب احمد کے مطابق انسانی جذبات کو سمجھ کر اس کے مطابق رد عمل دینے والے اس روبوٹ کی تیاری کا مقصد انسانوں اور روبوٹ کے درمیان روابط کو بہتر بنانا اور اس ٹیکنالوجی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پیپر‘ ایک عام انسان کی طرح دوسرے انسانوں کی طرح بات چیت کرنے، چلنے پھرنے اور لوگوں کے جذبات کے مطابق رد عمل ظاہر کرنے کی اہل ہے ۔
اس وقت جنوبی کوریا، جاپان کے علاوہ انسانی جذبات کی پہچان کرنے والے روبوٹ کی تیاری میں آسٹریلیا میں بھی کافی کام کیا جا رہا ہے۔ پیپر کو ہوائی اڈے، بینک، شاپنگ سینٹرز اور دیگر ایسے مقامات پر کام یابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں پبلک ڈیلنگ ضروری ہو۔