متفرقات

197

مفتی منیب الرحمن

وضاحت: ’’حبِ رسول ؐ کا معیار اور اس کے تقاضے‘‘ کے عنوان سے میں نے دو کالم لکھے تھے، سطورِ ذیل اُن کا تکملہ اور تتمّہ ہیں، پچانوے فی صد قارئینِ کرام نے اسے سراہا ہے، دوچار آراء آئی ہیں، وہ بھی اختلافی نہیں ہیں، بلکہ اپنے انداز میں محبت کے قرینے کا اظہار ہے، ہماری خواہش ہے کہ ہمارا مقابلہ علم کے میدان میں ہے، ان مظاہر میں نہیں ہے، لہٰذا ہمیں ترجیحات کا تعیُّن کرنا چاہیے اور چالیس سے زیادہ مشائخ عظام اور مفتیانِ کرام کی توثیقات کے ساتھ ’’اصلاحِ عقائد واعمال‘‘ کتاب ’’اَلدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَۃ‘‘کے جذبے کے تحت لکھی گئی ہے:
’’اگر پگڑی ٹوپی یا جیب پر نعلینِ پاک کی شبیہ سجانے سے محبتِ رسول کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں، تو صحابہ کرام علیہم الرضوان کے لیے بہت آسان تھا کہ شبیہ نہیں بلکہ حقیقت میں نعلین خرید کر لاتے اور تاجدارِ کائناتؐ سے درخواست کرتے: ’’یارسول اللہ! آپ ایک بار انہیں پہن کر متبرک فرمالیں‘‘۔ اور پھر وہ انہیں اپنی پگڑی میں سجا لیتے۔ اس طرح طائف کی اذیتوں، ہجرت کے آزار، بدر، اُحد، خندق، حدیبیہ، خیبر اور تبوک کے مراحل سے گزرے بغیر سچے عاشقِ رسول قرار پاتے، کتنا آسان ہوتا عشقِ رسول، اگر کوئی یہ کہے کہ سیدنا خالد بن ولیدؓ نے حصولِ برکت کے لیے اپنی دستارِ مبارک میں سید المرسلین ؐ کے موئے مبارک رکھے ہوئے تھے، تو جواباً گزارش ہے: وہ نمائش کے لیے نہیں بلکہ پگڑی کے اندر رکھے ہوئے تھے اور آپ نعرہ بازی نہیں کر رہے تھے بلکہ میدانِ عمل میں سرگرم تھے۔ اسی طرح سید المرسلین ؐ کے وضوئے مبارک سے ٹپکنے والے قطرات کو وہ اپنے چہرے پر مَل لیتے تھے، سجاوٹ اور نمود کا کوئی تصور نہیں تھا، بس عقیدت تھی اور حقیقت تھی۔ المیہ یہ ہے کہ ارادت اور جماعتی نظم میں بندھے ہوئے علمائے کرام لب کشائی نہیں فرما رہے، ورنہ حج اور عمرے کے ہر ہر مرحلے (طواف، سعی، زمزم، منیٰ وعرفات ومزدلفہ کے مناسک) کی وڈیو تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کرنا کیا لِلّٰہیت ہے، اخلاص ہے، بے ریائی ہے، یہ اللہ والوں کی شان ہے، ہم کیسی مثالیں قائم کرنے جارہے ہیں، کیا علماء ہمیشہ مصلحتوں کا شکار رہیں گے۔ ہم خود بھی اصلاح کی بات قبول کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور سب سے یہی توقع رکھتے ہیں، خاص طور پر وہ شخصیات جو لوگوں کے لیے اُسوہ اور قُدوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کلمات’’اَلدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَۃ‘‘ کے تحت ہیں۔ تبرکات سے خیروبرکت کا حصول اہلسنت وجماعت کے نزدیک مسلّمہ امر ہے، لیکن جو انداز اختیار کیے جارہے ہیں، اُن میں ابتذال کا عُنصر بڑھتا جارہا ہے، ہماری گفتگو کا محور یہ ابتذال ہے۔ جو ہمارے ادارے یا تنظیمیں رشد وارشاد اور دعوت وتبلیغ اور تعلیم وتدریس کے میدان میں اچھے کام کر رہے ہیں، ہم ان کی تحسین کرتے ہیں، اُن کو تسلیم کرتے ہیں اور اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، پس ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ فقہی اعتبار سے شبیہ کا حکم اصل کا نہیں ہوتا، اگر کوئی یہ کہے کہ مولانا حسن رضا خان قادریؒ کی تو آرزو تھی:
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضور
تو پھر کہیں گے کہ ہاں! تاجدار ہم بھی
لیکن یہ آرزو حقیقی نعلینِ پاک کے لیے تھی، اگر شبیہ سے یہ مقصد پورا ہوتا تو ہمارے آج کے عاشقانِ مصطفیؐ کی طرح وہ بھی شبیہِ نعلینِ پاک بناکر اپنی دستارِ مبارک میں سجالیتے، کیوں کہ ایسا تو نہیں کہ یہ شبیہ اب دریافت ہوئی ہے اور انہیں اس کا علم نہیں تھا‘‘۔
سنتا جا شرماتا جا: ہندو رکنِ قومی اسمبلی جناب رمیش کمارو انکوانی نے قومی اسمبلی میں حرمتِ شراب کے بارے میں قرارداد پیش کی، اس کا خلاصہ یہ ہے: ’’شراب کے پرمٹ غیر مسلموں کے نام پر دیے جارہے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں شراب پینا جائز ہے یا شاید پسندیدہ ہے، یہ تاثر بالکل غلط ہے، کوئی بھی مذہب خواہ ہندو مت ہو، مسیحیت ہو، سکھ مذہب ہو، شراب نوشی کی ترغیب نہیں دیتا، نہ یہ ان مذاہب کی تعلیمات کا حصہ ہے، لہٰذا شراب کے پرمٹ جاری کرنے کے لیے ان مذاہب کو آڑ نہ بنایا جائے، بطورِ حیلہ استعمال نہ کیا جائے، کیوں کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ کاروبار مسلمان سرمایہ دار کرتے ہیں، وہی سرمایہ لگاتے ہیں، وہی اس سے نفع کماتے ہیں، مگر پرمٹ اپنے کسی غیرمسلم ملازم کے نام بنوا دیتے ہیں اور اس کی آڑ میں کاروبار کرتے ہیں‘‘۔ جنابِ رمیش کمار کا کہنا یہ ہے کہ اس فریب کا پردہ چاک ہونا چاہیے اور اس مذموم کارروائی کی آڑ میں دیگر مذاہب کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ مگر اس غیر مسلم رکنِ اسمبلی کی قرار داد کو مسلمان ارکان نے پزیرائی نہ دی اور شور شرابے میں اسے غت ربود کردیا گیا۔ ایک ایسا نظامِ حکومت کہ جس میں پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، اُس میں اس طرح کی شرمناک حرکات پر یہی کہا جاسکتا ہے: ’’سنتا جا، شرماتا جا‘‘۔ وزیرِ اعظم عمران خان کو اس بات کی سنجیدگی سے تحقیق کرنی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا ؟۔
کیسے کیسے لوگ: کسی شاعر نے کہا ہے:
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
ہمارے ہاں کیسے کیسے لوگ اعلیٰ مناصب پر فائز ہوجاتے ہیں، جسٹس (ر) جاوید اقبال جو عدالت عظمیٰ کے جج رہ چکے ہیں اور اب ماشاء اللہ! ادارۂ قومی احتساب کے چیئرمین کے منصب پر فائز ہیں، فرماتے ہیں: ’’کرپشن پر سزائے موت ہو، تو آبادی کم ہوجائے گی‘‘۔ اس سے بالواسطہ دنیا کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ مِن حیثُ القوم ہم کرپٹ لوگ ہیں، ہماری آبادی کا غالب حصہ کرپٹ عناصر پر مشتمل ہے اور اگر کرپشن کی سزا موت مقرر کردی جائے تو افزائشِ آبادی کا مسئلہ از خود حل ہوجائے گا اور آبادی کنٹرول ہوجائے گی۔ الغرض ہم اپنی تحقیر وتذلیل پر لطف محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں اپنے چیمبر میں بلا کر کہا: ’’آپ لوگ محض درخواست ملنے پر لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں اور بلیک میل کرتے ہیں‘‘، یہ کام تو مسلسل ہورہا ہے اور اب اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات کو میڈیا میں تشہیر کا شوق بھی نفسیاتی عارضے کی صورت اختیار کرچکا ہے، اُن کی خواہش ہے کہ وہ روز میڈیا پر اپنے فرموداتِ عالیہ جاری کرتے ہوئے نظر آئیں۔ ہماری رائے میں ان کے مندرجہ بالا ریمارکس پوری قوم کی توہین ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت بدعنوان ہے، کرپٹ ہے اور سزائے موت کی حق دار ہے اور انہوں نے آبادی کنٹرول کرنے کا یہ نسخہ تجویز کیا ہے کہ کرپشن کی سزا موت قرار دی جائے، کیا وہ عدالت عظمیٰ کی سطح پر ایسا ہی عدل تقسیم کرتے رہے ہیں۔ وہ اگر بہادر اور جری انسان ہوتے تو ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کردیتے، جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کردیا تھا‘‘۔
صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی فرماتے ہیں: ’’مشرقی پاکستان کرپشن کی وجہ سے ٹوٹا تھا‘‘۔ اُن کی خدمتِ عالیہ میں گزارش ہے: ’’جنابِ والا! کرپشن کے خلاف جہاد کیجیے، تحریک جاری رکھیے، یہ آپ کی پارٹی کا منشور ہے، لیکن خدارا! تاریخ کو بلا کم وکاست بیان کیجیے، مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کا سبب وہاں کے لوگوں کی جمہوری اور معاشی حقوق سے محرومی تھی، اقتدار کی مرکزیت کے رجحان نے اُن میں احساسِ محرومی پیدا کردیا تھا، جس کے نتیجے میں پاکستان کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات میں کرپشن کا ذکر نہیں تھا اور نہ اُس دور تک ہمارے ہاں کرپشن موجودہ سطح پر تھی، بلکہ اب پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معیار کافی بہتر تھا، یہی وجہ ہے کہ عمران خان ہمیشہ اُس دور کا حوالہ دیتے ہیں، ہر غزل میں کرپشن کا مصرع فِٹ کرکے تاریخ کو مسخ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور آسمانوں اور زمینوں میں کتنی ہی ایسی نشانیاں ہیں، جن سے لوگ منہ پھیرتے ہوئے گزر جاتے ہیں، (یوسف: 105)‘‘۔ آپ کا تعلق تو کراچی سے ہے اور کراچی میں آج بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو سقوطِ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں دُہری ہجرت کے کرب سے گزرے ہیں، ہم تو ایسی قوم ہیں کہ پاکستان اور پاک فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں بنگلا دیش میں جن معمّر لوگوں کو پھانسی چڑھایا گیا، ہم سرکاری سطح پر اس پر کوئی مؤثر احتجاج بھی نہیں کرسکے‘‘۔
نیشنل کریکولم کونسل: 9جنوری کو وفاقی وزارتِ تعلیم کے دفتر میں شفقت محمود کے زیرِ صدارت نیشنل کریکولم کونسل کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا، اس میں جن امور پر اتفاقِ رائے تھا، وہ یہ ہیں: (۱) ریاست کی ذمے داری ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم رائج کرے تاکہ معاشرے کی مڈل کلاس اور زیریں طبقات کے بچوں کو تعلیم وترقی کے یکساں مواقع ملیں اور محض غربت کے سبب قوم کا جوہرِ قابل رُلتا نہ پھرے، (۲) تسلیم کیا گیا کہ حکومت کے زیرِ انتظام نظامِ تعلیم اور پرائیویٹ سیکٹر میں نظامِ تعلیم میں بہت بڑا تفاوُت ہے اور ملک میں تعلیم سب سے کامیاب کاروبار بن کر رہ گئی ہے، متفرق نصابوں سے ایک ذہنی ساخت کی قوم تیار نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ایک ہی جَست میں تمام منزلیں طے نہیں ہوسکتیں، لیکن اگر فوری شروعات کردی جائیں تو پانچ دس سال میں مثبت آثار نظر آئیں گے، (۳) میں نے دینی مدارس وجامعات کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کہا: اگر قوم ایک نصاب کی منزل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو دینی مدارس اُس کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں میٹرک ہی سے فیکلٹی متعین ہوجاتی ہے، اصل مسئلہ وہ بنیادی مضامین ہیں جو ہر فیکلٹی کا جزوِ لازم ہیں، اُن کے لیے ہم وفاقی حکومت کے طے کردہ مضامین اور نصابی کتب کو بتدریج اپنانے کے لیے تیار ہوں گے، (۴) ہر مجلس میں دینی مدارس وجامعات کے طلبہ کے روزگار کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری لازمی روزگار کی ضمانت نہیں ہے، خود وزیرِ تعلیم نے کہا: پی ایچ ڈی کی شہادات کے حامل مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لہٰذا دینی طلبہ وطالبات کا ذکر باندازِ تحقیر نہ کیا جائے بلکہ بحیثیتِ مجموعی یکساں نصابِ تعلیم، نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم کی بات کی جائے تو سب کے لیے قابلِ قبول ہوگی۔