حکومت منی بجٹ کی آمد کا مژدہ بہت پہلے ہی سنا چکی تھی۔ اب یوں لگتا ہے بجٹ چند دن کی دوری پر ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر بار بار یہ اعلان کررہے ہیں کہ منی بجٹ میں غریبوں پر مہنگائی کا بوجھ نہیں لادا جائے گا اور کوئی نیا ٹیکس لاگو نہیں کیا جائے گا۔ ایک طرف یہ دعوے ہو رہے تھے تو دوسری طرف حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں پندرہ فی صد اضافہ کر دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات چودھری فواد حسین نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دبے لفظوں میں تسلیم کیا ہے کہ منی بجٹ سے مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوگا مثلاً روٹی کی قیمت سات روپے سے بڑھ کر دس روپے تک ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے منی بجٹ پیش ہونے سے پہلے ہی مسترد کردیا ہے۔ مسلم لیگ ن بھی بجٹ کی مخالفت کر رہی ہے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت کی معاشی پالیسی کو کلی ناکام قرار دیا ہے۔ اس وقت منی بجٹ کے ساتھ ایک ڈریکولا کا تاثر وابستہ ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ منی بجٹ حکومتی دعوؤں کے برعکس ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان لائے گا۔ منی بجٹ کے بعد پانچ ماہ کی دوری پر سالانہ بجٹ کا جن منہ کھولے غریبوں کا منتظر ہے۔ جو کسر منی بجٹ میں باقی رہ گئی ہے وہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں پوری ہوگی۔ یہ منی بجٹ بہت سے حوالوں سے مثبت بھی ہو سکتا ہے مگر ماضی کے آئینے میں دیکھا جائے تو منی بجٹ کا نام عوام کو خوف زدہ کرنے کا باعث ہی رہا ہے کیوں کہ ہر بجٹ عوام پر مہنگائی بم ہی گرانے کا باعث بنتا ہے۔
حکومت ملک کو اقتصادی مشکلات کی دلدل سے نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ چین، سعودی عرب اور قطر جیسے دوست ملکوں نے آئی ایم ایف کی بلیک میلنگ سے نکلنے میں مدد تو دی ہے مگر یہ وقتی معاملہ ہے۔ آگے چل کر حکومت کو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اسد عمر اس کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔ میڈیا کو حکومت سے گلہ یہ ہے کہ حکومت اپنے معاشی کارڈ چھپائے ہوئے ہے اور اپنی حکمت عملی کو ان سے شیئر نہیں کرتی تاکہ ہر میڈیا گروپ ’’سب سے پہلے‘‘ خبر بلکہ خوش خبری دینے کا اعزاز حاصل کرتا۔ یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریزاں ہے تو متبادل کیا ہے؟۔ یوں لگتا ہے کہ معاشی حکمت عملی کے کارڈ چھپانے کا تاثر میڈیا کا حسنِ ظن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کی معاشی پالیسی وقت گزارو ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت خاموشی کے ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کر رہی ہے تاکہ قرض کی اگلی قسط کے لیے راستہ مکمل ہموار ہو اور عوام پہلے سے اس مرحلے کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہوں۔ ایسے میں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے یہ چونکا دینے والی بات کی تھی کہ حکومت کو چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیے۔ غیروں کے قرض میں تو پہلے ہی جکڑے ہوئے کہیں دوستوں کے قرض تلے مزید دب کر نہ رہ جائیں۔ غیروں سے ان کی مراد آئی ایم ایف اور دوستوں سے مراد چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت موجودہ مشکل صورت حال سے نکلنے میں مدد دینے والے چند دوسرے ملکوں سے ہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی معاشی پالیسیوں نے ملک کو کنگال کر کے رکھ چھوڑا ہے۔ مصنوعی استحکام اور جادو کے کمالات دکھا کر ہر حکومت نے وقت گزاری کی پالیسی اختیار کیے رکھی۔ رہی سہی کسردہشت گردی نے پوری کر دی ہے۔ دہشت گردی نے سیاحت اور صنعت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ سرکاری اداروں میں سرخ فیتے کی قباحتوں نے ملک میں توانائی کے بحران اور عارضے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب موجودہ حکومت سے حالات سنبھلنے نہیں پارہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کی معاشی پالیسی اب تک زیادہ ثمر آور ثابت نہیں ہوئی۔
عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی ان کی معاشی صلاحیتوں کے معاملے میں کسی مغالطے کا شکار رہے ہیں۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے معیشت کی بحالی کے لیے اجتماعی کے بجائے فرد واحد اسد عمر کی دانش اور حساب کتاب پر اعتماد کیا۔ بحران چوں کہ اس قدر گہرا اور وسیع تھا کہ اس سے نکلنے کے لیے فرد واحد کی دانش اور اعداد وشمار پر انحصار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اسد عمر کی الف لیلوی داستانیں اپنی جگہ مگر عوام میں عمران حکومت سے مایوسی پیدا کرنے میں اسد عمر کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ اسد عمر پر ان کے بڑے بھائی محمد زبیر بھی اب دبے لفظوں میں تنقید کرنے لگے ہیں۔ حکومت اب بھی حالات کو سنبھالنے کی تدابیر اختیار کررہی ہے۔ خود عمران خان بھی خوش گمانی کے راستے پر قائم ہیں مگر ان کے ساتھیوں کی عملی کارکردگی اس خوش گمانی کا ساتھ دیتی نظر نہیں آتی۔ یہ حقیقت ہے حکومت کی کامیابیوں میں ہر وزیر مشیر حصہ دار ہوگا مگر حکومت کی ناکامی کا ملبہ اُٹھانے اور بوجھ سہنے کے لیے عمران خان تنہا ہوں گے۔ ایسے میں مہنگائی کی چھری عوام پر گرے یا عوام اس چھری پر نقصان عوام کا ہی ہے۔ اس لیے حکومت کی ذمے داری ہے کہ اپنی معاشی پالیسیوں کا بوجھ عوام پر نہ پڑنے دے۔ پاکستانی عوام اس لحاظ سے بہت صابر وشاکر ہیں۔ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں عوام نے ٹیکسوں میں اضافے سے بپھر کر حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پاکستانی عوام نے مہنگائی کی ہر لہر کو سر جھکا کر قبول کیا۔ اپنی تاریخی روایت کے مطابق مہنگائی کی آمدہ لہر کو وہ سر جھکا کر قبول کرلیں گے مگر حکمران طبقات کو اپنے عوام کی اس اطاعت شعاری اور امن پسندی کا احترام کرتے ہوئے ان پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔