سانحہ اے پی ایس:نوٹس لیا کیوں تھا

159

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاکستان کے ایک اہم واقعے آرمی پبلک اسکول کے از خود نوٹس کو از خود نمٹادیا۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے عدالت کے رو برو بیان دیا ہے کہ 147گواہوں کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں۔109کے باقی ہیں۔ جب تک یہ بیانات قلمبند نہیں ہوتے رپورٹ جمع نہیں کراسکتے۔ اس پر چیف جسٹس نے فرمایا کہ ہم اس معاملے کو نمٹادیتے ہیں۔ جب رپورٹ مکمل ہوجائے تو اسے عدالت میں جمع کرادیا جائے۔ اس حکم پر یہ سوال خود بخود سامنے آگیا کہ اگر کیس درمیان میں نمٹانا تھا تو از خود نوٹس لیا کیوں تھا۔ آرمی پبلک اسکول کا سانحہ کوئی معمولی سانحہ تو نہیں تھا۔ پھر چیف جسٹس نے مقتول بچوں کے والدین کی شکایات پر از خود نوٹس لیا تھا۔ چیف جسٹس نے 2018ء میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا لیکن جنوری 2019ء میں سوال پوچھا کہ کیا کمیشن نے رپورٹ پیش کردی ہے؟ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالت کے علم میں یہ تاخیری حربے کیوں نہیں ہوتے۔ عدم پیشی کے باوجود سماعت در سماعت ہونا مقدمات کو لٹکائے رکھنا عدالتوں کا معمول ہے۔ ایسے ججوں کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہوتی۔ اگر کمیشن نے رپورٹ نہیں دی تو عدالت کو کیوں نہیں علم تھا کہ کمیشن نے رپورٹ نہیں دی ہے۔ اب تو سارا معاملہ غت ربود ہوگیا۔ عدالت نے نوٹس لے بھی لیا اور کوئی فیصلہ بھی نہیں ہوا بلکہ الٹا شکایت کرنے والے والدین مشتبہ بن جائیں گے۔ کیا یہی انصاف ہے؟