زبان ہی تو فساد کی جڑ ہے

328

اہل علم ومذہب زبان کو فساد کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ یہ زبان ہی ہے جس نے پورے معاشرے میں فساد برپا کررکھا ہے زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں زبان کی فرمانروائی اور قافیہ پیمائی نہیں۔ سیاست ہی کو دیکھ لیجیے اس میں زبان نے کیسی ہلچل مچارکھی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف زبان کا بے دریغ استعمال کررہی ہیں اور وہ ہنگامہ برپا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ کہتے ہیں کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ زبان کے حوالے سے ایک حدیث بھی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جب دن کا آغاز ہوتا ہے تو انسانی جسم کے تمام اعضاء زبان سے پناہ مانگتے ہیں اور اس سے عرض کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھے ورنہ ہم مفت میں مارے جائیں گے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ زبان تو دشنام طراز اور یاوہ گوئی کرکے جبڑوں کے درمیان چھپ جاتی ہے خمیازہ جسم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کسی کا سر پھوٹتا ہے، کسی کی ٹانگیں ٹوٹتی ہیں اور کسی کو کمر پر کاری ضرب سہنا پڑتی ہے۔
یہ زبان ہی تو تھی جس نے ہمارے اطہر ہاشمی صاحب کو بری طرح چکرا دیا بات کرتے کرتے اینٹھ گئی۔ ہاشمی صاحب بول رہے تھے لیکن کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ یہ سانحہ ایسا تھا کہ ساتھی پریشان ہوگئے انہیں کراچی کے سب سے بڑے اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مشینوں کے حوالے کردیا۔ بہت سے ٹیسٹ لیے گئے جو سب نارمل تھے۔ آخر کسی لال بجھکڑنے یہ پوچھا کہ مریض کو چند روز پہلے ہارٹ اٹیک ہوا تھا جس کا اثر زبان پر پڑا تھا۔ خود ہاشمی صاحب لکھتے ہیں کہ انہیں کسی ہارٹ اٹیک کی اطلاع نہیں ہوئی وہ تو پچھلے چند روز کے دوران میں حسب معمول دفتر آتے اور کام کرتے رہے۔ ہاشمی صاحب نے عقل مندی یہ کی کہ وہ اسپتال میں اٹھارہ گھنٹے تک مشق ستم بننے کے بعد پھوٹ لیے اور جان بچی سو لاکھوں پائے ورنہ اسپتال ان سے لاکھوں اینٹھ لیتا۔ اب معاملہ صرف 93ہزار پر ٹل گیا ۔ یہ سانحہ فاجعہ تھا جو گزشتہ سال 12دسمبر کو پیش آیا ہاشمی صاحب نے اس سال 4جنوری کو اپنے کالم کے ذریعے جسارت کے قارئین کو اطلاع دی۔ ہماری بدنصیبی دیکھیے کہ ہمیں انٹرنیٹ سروس کی خرابی اور پوسٹ مین کی مہربانی سے یہ کالم 12جنوری کو پڑھنے کو ملا اور آج ہم اس سانحے پر اظہار افسوس کررہے ہیں۔ ہاشمی صاحب کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ یار لوگوں نے مزاج پرسی کے بہانے ان کا گھر دیکھ لیا ۔ گھر تو ہم نے بھی ان کا دیکھ رکھا ہے لیکن اب ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ اسی چوبارے میں مقیم ہیں جہاں ہم ان سے پچھلی بار ملے تھے یا ٹھکانہ بدل لیا ہے۔ ٹھکانہ بدلنے میں کوئی حرج نہیں اس طرح آدمی آسانی سے پکڑائی نہیں دیتا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہاشمی صاحب کم ازکم ایک دفعہ تو ٹھکانہ بدل چکے ہیں۔
آیئے اب کچھ سنجیدہ باتیں بھی ہوجائیں۔ ہاشمی صاحب بالکل درست کہتے ہیں کہ انہیں کوئی ہارٹ اٹیک نہیں ہوا۔ اللہ آئندہ بھی انہیں اس سے محفوظ رکھے۔ ان کی زبان کے ساتھ جو ہوا وہ درحقیقت فالج کا خفیف سا اثر تھا۔ اس کے لیے ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ سمجھ دار ڈاکٹر علامات دیکھ کر فوراً بھانپ لیتا ہے۔ ایلوپیتھک میں ایسی موثر دوائیں ہیں جن سے اس کا فوری تدارک ہوجاتا ہے۔ ایک دیسی نسخہ یہ ہے کہ ناشتے سے پہلے زبان پر اور تالو میں شہد اچھی طرح لگایا جائے پھر چند لمحوں بعد اسے نگل لیا جائے۔ اس طرح زبان کے مسلز مضبوط ہوں گے اور وہ آئندہ اس تکلیف سے بچی رہے گی۔ ہاشمی صاحب اس نسخے کو اپنے معمولات میں شامل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے دوسروں کی زبان درست کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور خبردار کرتے رہتے ہیں کہ ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘حالاں کہ زبان بگڑجائے تو بڑی مشکل سے قابو میں آتی ہے۔ یقین نہ آئے تو ریلوے کے وزیر شیخ رشید سے پوچھ لیجیے۔ انہوں نے جب سے اپنی زبان پر پابندی لگائی ہے خود سے یہ کہتے پھرتے ہیں۔
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اب آخر میں غالب کا یہ شعر ہاشمی صاحب کی نذر ہے۔
یاربّ وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے سمجھ کو زباں اور
ہاشمی صاحب کو بھی نئی زبان تو ملنے سے رہی وہ اسی زبان کو شہد کھلا کر تندرست وتوانا رکھیں اللہ بھلا کرے گا۔