ہے کوئی جو ’’حوالہ‘‘ اور ’’سر‘‘ کو کسی دیوکے حوالے کردے؟

351

ہمارے بڑے بوڑھوں کو ہمیشہ اس پر فخر رہا ہے کہ اردو زبان الفاظ کے لحاظ سے بے حد مالدار زبان ہے اور فراغ دل ایسی کہ اس نے بے شمار زبانوں کے الفاظ اپنے میں ایسے سمو لیے ہیں کہ جیسے یہ اسی کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں لیکن آج کل ایک لفظ کی بے معنی گردان سے اردو کی کم مائیگی کو نہ جانے کیوں ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ لفظ ہے ’’حوالہ‘‘ جو اردو پر پیر تسمہ پا کی طرح چمٹ گیا ہے، ٹیلی وژن اینکر ہوں، سیاست دان، کالم نگار ہوں، دانشور یا عام آدمی یہ سب اس لفظ کو ایسے استعمال کرتے ہیں کہ جیسے ان کے ذہن سے وہ با معنی الفاظ یکسر مٹ گئے ہیں جو حوالہ سے کہیں زیادہ مناسب اور موثر الفاظ ہیں مثلاً ’’بارے میں‘‘، سلسلہ میں‘‘، ’’ضمن میں‘‘، ’’اس تعلق سے‘‘ یا ’’اس سے متعلق‘‘ وغیرہ۔
بنیادی طور پر ’’حوالہ‘‘، اردو میں صرف دو صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک ریفرنس کے لیے اور دوسرے کسی شخص کو پولیس کے حوالہ کرنے کے لیے۔ مکان کسی کے حوالے کرنے یا کاغذات اور دستاویز کسی کے حوالے کرنے کے لیے بھی لفظ حوالہ استعمال کیا جاتا ہے۔ فیروز الغات میں حوالہ کے معنی، سپردگی، تحویل، پتا، نشان دیے گئے ہیں۔ اسی سے لفظ حوالات بنا ہے جہاں ملزم کو تا فیصلہ مقید رکھا جاتا ہے۔ حوالہ دار، ہیڈ کانسٹبل یا فوج میں حوالدار کا عہدہ جس کے تحت کئی فوجی ہوں۔ اسی لفظ حوالہ کی اختراع ہے۔ آج کل لفظ حوالہ کا چلن دراصل ٹیلی وژن چینلز پر اینکروں کی کاہلی کی وجہ سے شروع ہوا ہے اور صحافیوں اور سیاست دانوں نے بھی اپنی تساہلی کی وجہ سے اس لفظ کو بغیر سوچے سمجھے اپنا لیا ہے۔ آج کل کئی اینکرز جب ایک ہی جملے میں چھ جگہ حوالہ استعمال کرتے ہیں تو اس قدر اذیت ہوتی ہے کہ وہ بیان سے باہر ہے۔ اب تو چینلز پر کھانا پکانے کے پروگراموں میں بھی لفظ حوالہ جیسے کھانے کا ایک حصہ بن گیا ہے، کوفتوں کے حوالے سے، قیمے کے حوالے سے اور مصالحوں کے حوالے سے بات ہوتی ہے۔
ایک مستند اخبار میں یہ تحریر پڑھ کر میں چونک گیا۔ ’’قائد اعظم محمد علی جناح کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے مختلف تضادات پائے جاتے ہیں حتی کہ اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ تاریخ کے حوالہ سے دو مختلف تاریخوں کے حوالے سے معروف دانشور نے قائد اعظم کی سوانح حیات میں اس کا ذکر کیا ہے‘‘۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں ’’دیگر یورپی ممالک بھی پاکستان کے حوالہ سے مثبت ٹریول ایڈوائزری جاری کر رہے ہیں اور دہشت گردی کے حوالہ سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘۔
سر، سر، سر جی
اُس زمانے میں جب ہم انگریزوں کی غلامی میں تھے، سر کا لفظ صرف دو موقعوں پر استعمال ہوتا تھا، ایک انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکولوں میں اساتذہ کو سر کہہ کر پکارا جاتا تھا، دوسرے کوئی درخواست لکھی جاتی تھی تو اس میں نہایت احترام اور عاجزی کے اظہار کے لیے سر لکھا جاتا تھا لیکن اب آزادی کے بعد سر کا جادو عجیب انداز سے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے لوگ ’’سر، سر‘‘ کی مالا جپتے ہیں اور ایک دوسرے کو سر کہہ کر خطاب کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے جناب والا، صاحب، محترمی، مکرمی، کے تمام الفاظ اپنی لغت سے یکسر نکال کر باہر پھینک دیے ہیں۔
کئی سال پہلے کی بات ہے جب میں بی بی سی اردو سروس سے وابستہ تھا تو کسی اہم مسئلے پر انٹرویو کے لیے میں نے آزاد کشمیر کے صدر کو (میں ان کا نام نہیں لوں گا) ٹیلی فون کیا۔ ادھر سے جواب آیا۔ ’’جی سر۔ آپ کیسے ہیں سر‘‘ میں سکتے میں رہ گیا اور مجھے بے حد شرمندگی ہوئی کہ اپنے آپ کو آزاد کشمیر کا صدر کہلانے والا شخص، ایک صحافی کو سر، سر کہہ کر خطاب کر رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان میں ’’سر‘‘ کے ورد کی وبا، بھٹو صاحب کے دور میں بڑے زوروں سے شروع ہوئی تھی۔ ان کے حواریوں کے جھرمٹ میں، جب بھی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سر، یس سر۔ سرجی، ہاں سر کے ڈونگروں نے ان کے گرد حصار کھینچ رکھا ہے۔ ویسے بھی ان دنوں چاپلوسی کا دور اپنے عروج پر تھا اور چاپلوسی ترقی کا اہم زینہ مانی جاتی تھی۔ بھٹو صاحب کے دور سے پہلے میں نے پاکستان میں خال خال ہی کسی کو سر کہتے ہوئے سنا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد جب کہ انگریزوں کے دور میں پلی بڑھی نوکر شاہی (بیوروکریسی) ملک پر چھائی ہوئی تھی اس وقت بھی انگریز پرست ’’سر‘‘ کہہ کر ایک دوسرے سے مخاطب نہیں ہوتے تھے۔ یہاں لندن میں اب ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے کبھی کسی کو نہ تو دفتر میں اپنے سے بڑے افسر یا سربراہ کو سر کہتے ہوئے سنا ہے اور نہ اپنے بڑوں اور دوستوں کو سر کہہ کر مخاطب کرتے دیکھا ہے۔ اور نہ سیاسی جماعت کے کسی کارکن کو اپنے قائد کو سر کہتے ہوئے سنا ہے۔ سب ایک دوسرے کو ’’پہلے نام‘‘ سے بلاتے ہیں سر کا خطاب صرف ان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جنہیں ملکہ ان کے خصوصی خدمات کے اعتراف کے طور پر (نائٹ ہڈ) سر کا اعزاز دیتی ہیں۔ انہیں بھی بات چیت کے دوران سر نہیں کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں سر کی وبا کے بارے میں ایک صاحب قلم سے بات ہورہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان بڑی طاقت ور زبان ہے اور اس میں زبردست وسعت اور وسعت قلبی ہے جس طرح اس نے انگریزی زبان کے دوسرے بے شمار الفاظ اپنے میں سمو لیے ہیں اسی طرح اب سر کا لفظ بھی اردو نے اپنے سر پر سجا لیا ہے۔ کہنے لگے کہ یہ لفظ اب لوگوں کی زبان پر ایسا چڑھ گیا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے لوگ عادتاً استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں وہ اپنے بڑے بھائی کے ہاں کھانے پر گئے تھے اور جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ عجیب وغریب ریت پڑ گئی ہے ہمارے ہاں کہ جوں ہی ہم چند لوگ آپس میں مل بیٹھتے ہیں فوراً سیاست پر بحث چھڑ جاتی ہے اور نہایت گرما گرم، انتخابی مہم کی طرح۔ میرے بڑے بھائی کے ہاں بھی کھانے پر سیاست پر بحث چھڑ گئی۔ اس بحث کے دوران میرا بھتیجا اپنی والدہ سے کج بحثی کرنے لگا اور زور سے بولا ’’سر، آپ سمجھتی نہیں‘‘۔ سب لوگ ہنس پڑے۔ تھوڑی دیر بعد میرے بھائی نے اپنے بیٹے سے کہا ’’سر جی۔ ذرا ارشاد کے ہاں سے پان تو لے آو‘‘ بھتیجے نے کہا، جی سر۔
صاحب قلم نے سخت مایوسی کے عالم میں کہا کہ اب آپ دیکھیے کہ کس طرح ’’سر‘‘ کا لفظ ہماری زبان میں اور گفتگو میں در آیا ہے اور اس ایک لفظ نے ہمارے ادب اور ثقافتی قدروں کو کس طرح متزلزل کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ امتیاز کرنا مشکل ہے کہ سر کی وبا ہماری ذہنی غلامی کی علامت ہے یا اپنے آپ کو مغربی تعلیم یافتہ ثابت کرنے کی کوشش ہے۔