تین سو بتیس ارکان پارلیمان نا اہل 

227

الیکشن کمیشن پاکستان نے اثاثوں کی تفصیلات نہ دینے پر 323 ارکان پارلیمان کی رکنیت معطل کردی ہے۔ ان میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری ، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری ، وزیر مملکت شہریار آفریدی، وزیر صحت عامر کیانی، سابق وفاقی وزیر احسن اقبال، اختر مینگل اور کئی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ویسے تو یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو کہ گوشوارے جمع کرانے پر منسوخ ہو جائے گا۔ لیکن اثاثے ظاہر نہ کرنے کا عمل عوام کے ان نمائندوں کی نااہلی اور لاپروائی کا واضح ثبوت ہے۔ یہ عوامی نمائندے اگر الیکشن کمیشن کی ہدایت کو مسترد یا نظر انداز کرسکتے ہیں تو عوام سے متعلق اقدامات کو کیا اہمیت دیں گے۔ معطلی کے اس عرصے میں نہ تو فی الوقت نا اہل قرار دیے گئے ارکان پارلیمان قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکیں گے نہ ہی اس عرصے کے واجبات اور مراعات کے مستحق ہوں گے جس کی شاید انہیں پروا بھی نہ ہوگی۔ لیکن ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ چونکہ اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتے اس لیے کورم کا مسئلہ ضرور پیدا ہوگا۔ اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ یوں بھی کئی ارکان پارلیمان محض حاضری لگانے اور مراعات کا استحقاق ثابت کرنے کے لیے ایوانوں میں آتے ہیں، انہیں قانون سازی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ کورم پورا نہ ہونے سے پہلے بھی اجلاس ملتوی ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہوں گے۔ لیکن وزراء سمیت ان ارکان اسمبلی نے اپنے غیر ذمے دار ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اچانک نہیں دیا ہے بلکہ کئی بار یہ انتباہ کیا جاچکا ہے کہ فلاں تاریخ تک اپنے گوشوارے جمع کرا دیے جائیں ورنہ رکنیت معطل ہو جائے گی۔ جب وزراء سمیت عوامی نمائندے سرکاری ہدایات پر عمل نہ کریں تو عوام سے قانون کی پاسداری کی توقع کیسے جاسکتی ہے۔ اگر کوئی عام آدمی بروقت ٹیکس جمع نہ کرائے تو اس پر جرمانہ ہو جاتا ہے۔ ان ارکان پارلیمان پر بھی جرمانہ ہونا چاہیے۔ ایک تماشا یہ ہے کہ عمرانی حکومت کے ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی رکنیت بھی معطل ہے یعنی اس وقت وہ رکن اسمبلی بھی نہیں۔ اس کے باوجود وہ سندھ حکومت کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں اور وزیر اعلیٰ سندھ کو ہٹانے کی بنیاد رکھتے پھر رہے ہیں۔ یہ کام وہ کس حیثیت میں کررہے ہیں؟ سندھ حکومت کے غبارے میں سے ہوا نکالنے کی کوشش کرنے کے بجائے وہ قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت بحال کروائیں۔ سینیٹ میں تو ان کا داخلہ پہلے ہی بند ہے، فی الوقت وہ قومی اسمبلی میں بھی داخل نہیں ہوسکتے۔ موصوف نے عدالتوں کے فیصلوں پر بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے کہ عدالتیں انتظامی فیصلوں سے اجتناب کریں، اس سے تقسیم اختیارات کا نظریہ غیر موثر ہو جائے گا۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ عدالتیں فیصلوں ہی سے اجتناب کریں۔