17 جنوری 2019ء آنے میں دیر تو نہیں لگی۔ بہت سے لوگوں کے سر سے بڑا دباؤ اُتر گیا۔ ان کے دل و دماغ پر بوجھ تھا اُتر گیا۔ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے اور باہر نکالے گئے چھوٹے بڑے چوروں کے سر سے بھی بوجھ اُتر گیا۔ باقی چوروں کو بھی سکون ملا، عافیہ کو غائب کرنے والوں کو بھی سکون ملا اور زرداری اور نواز شریف کے سر کا بوجھ بھی اُتر گیا، کیوں کہ ان سب کے لیے ڈراؤنا خواب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کرسی سے اُتر گیا۔ 17 جنوری آ ہی گیا یقیناًبہت لوگ خوش ہوئے ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلے چیف جسٹس ہوں گے جن کے ریمارکس ان کے زیر سماعت مقدمات اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے بہت زیادہ تعداد میں اخبارات اور میڈیا کی زینت بنے ہوں گے۔ چیف جسٹس کی حیثیت سے میاں ثاقب نثار نے وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزرا اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں، تاجروں، صنعتکاروں سب کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ میاں ثاقب نثار کے انداز سے آغاز میں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اب پاکستانی قوم انصاف ہوتا دیکھ لے گی۔ میاں نواز شریف اقتدار سے محروم ہوئے، جیل بھیجے گئے تو ایسا لگا کہ اب سارے ایسے لوگ جیلوں میں جائیں گے جو بدعنوانی میں ملوث تھے یا ان کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایسا بھی لگا کہ اب کسی روز دس ہزار سے زیادہ لاپتا لوگ جوق در جوق عدالتوں میں پیش کیے جائیں گے۔ قوم کو اُمید بندھ چلی کہ 15 سال سے امریکی قید میں پڑی ہوئی پاکستانی قوم کی بیٹی اور قوم کی عزت ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان واپس آجائے گی، راؤ انوار کو سزا ہوجائے گی، سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مجرم لٹکائے جائیں گے، 12 مئی کے قاتلوں کو پکڑا جائے گا، اور بہت کچھ ہوگا۔
لیکن رفتہ رفتہ سب نے دیکھا کہ پاکستان کے سب سے زیادہ ریمارکس دینے والے، تیز ترین جملے کہنے والے، اِدھر کی دکھا کر اُدھر کا فیصلہ دینے والے چیف جسٹس کے پاس کیسوں کا انبار لگ گیا۔ ابھی چند روز قبل ایک پیغام واٹس اپ پر آیا….. اس کو مکمل طور پر درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا لیکن جو کچھ اس میں درج ہے وہ ہے تو سہی۔ یہ سب مقدمات موجود ہیں، ایک طویل فہرست ہے جو مکمل نہیں ہے، اسی طرح سے بہت سے مقدمات اور بھی ہیں۔ پیغام میں تو طنز کیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کیس، نتیجہ صفر، پانی چوری کیس (سیمنٹ فیکٹری) نتیجہ صفر…. لیکن اگر نتیجہ صفر نہیں بھی ہے تو مقدمے کی سماعت جاری ہے یعنی معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ فہرست کے مطابق مقدمات درج ذیل ہیں۔ منرل واٹر پانی چوری کیس، عافیہ صدیقی کیس، عزیر بلوچ کیس، عابد باکسر کیس، ماڈل آیان علی کیس، ڈاکٹر عاصم کیس، شرجیل میمن کیس، 12 مئی قتل کیس، اسحق ڈار کیس، بے نظیر ائر پورٹ اسلام آباد کرپشن کیس، ایم کیو ایم غداری کیس، ثبوت موجود نتیجہ صفر، ایم کیو ایم دہشت گردی اور فنڈنگ، اصغر خان کیس، بلدیہ ٹاؤن کیس، ماڈل ٹاؤن کیس، راؤ انوار ساڑھے چار سو افراد کا قتل کیس، آسیہ کیس، سودی نظام کا خاتمہ، اردو نفاذ، حسین حقانی، آئین شکن جنرل پرویز مشرف کیس۔ ان سب کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ نتیجہ کس کا نکلا….. ایمپریس مارکیٹ اور اس کے اردگرد کے علاقے کو صاف، تجاوزات کے خاتمے اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کو بحال کرنے کا حکم جاری ہوا۔ حکم لے کر جس طرح عمل کروایا گیا شاید اس کے بارے ہی میں کہا جاتا ہے کہ ’’کاتا اور لے اُڑی‘‘۔ درجنوں مقدمات بشمول سانحہ 12 مئی، بلدیہ ٹاؤن، قتل و غارت، غداری وغیرہ میں ملوث میئر کراچی وسیم اختر صاحب ہی آپریشن توڑ پھوڑ میں لگ گئے۔ چیف صاحب 17 جنوری تک یہ معلوم نہیں کرسکے کہ ان کے حکم کا کیا حشر کیا گیا۔ کیا انہوں نے یہی حکم دیا تھا کہ پورے شہر میں صرف توڑ پھوڑ کی جائے۔ ملبہ پھینکا جائے اور صفائی کے لیے فنڈز اور اختیار مانگے جائیں۔
بہرحال اب تو چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے ہیں ان کو اس بات کا قلق تو ہوگا کہ کچھ مہلت اور مل جاتی۔ تو مزید ازخود نوٹسز لے لیتے اور ہاں کچھ مقدمات مزید نمٹا بھی دیتے۔ جیسے چلتے چلتے آرمی پبلک اسکول کا خطرناک ترین ازخود نوٹس چیف صاحب نے خود ہی نمٹادیا۔ شکایت کرنے والے والدین کو گہرے صدمے اور سنگین خطرے میں چھوڑ دیا۔ بہبود آبادی یا تقلیل آبادی کا ازخود نوٹس لیا اور ازخود نمٹادیا۔ جناب اس چکر میں کروڑہا روپے کے اشتہارات اور سفری اخراجات ہوگئے۔ ٹی وی چینلوں، اخبارات وغیرہ نے ازخود بھی اشتہارات لگائے اور ادائیگیاں بھی ہوئیں۔ اب کیس نمٹادیا گیا ہے، آبادی روکنے میں ایوب سے لے کر بے نظیر، مشرف اور اب چیف صاحب خود ناکام ہوگئے، اسے بھاری پتھر سمجھے یا کچھ بھی۔ چوم کر چھوڑ دیا۔ ان سب مقدمات سے قطع نظر آپریشن توڑ پھوڑ صرف کراچی میں نہیں ہوا ہے، پورے ملک میں ہوا ہے اور اس کے دو پیمانے سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ جو کوئی اسلام آباد کی طرح غیر قانونی زمین پر تعمیر کردہ کمپلیکس میں فلیٹ لے چکا تو اس کے لیے عدالت نے یہ جواز دیا کہ اب یہ فلیٹ بن چکا ہے اس لیے راستہ نکالا جائے اور راستہ یہ نکلا کہ فلیٹوں کے پروجیکٹ کو جائز قرار دے دیا گیا، اس پروجیکٹ میں وزیراعظم عمران خان کا فلیٹ بھی ہے۔ گرینڈ حیات ٹاور کو ہوٹل کے لیے منظوری ملی اور فلیٹ بنادیے گئے، اس کی لیز کے اربوں روپے بلڈر دے رہا تھا لیکن اس وقت مسترد ہوگیا تھا۔ اب اس کی منظوری مل گئی ہے یہ فلیٹ جائز ہیں۔ اسی طرح بنی گالا میں وزیراعظم کے مکان کی تجاوزات کو بچانے کے لیے راستہ یہ نکالا گیا کہ اسلام آباد کا ماسٹر پلان ہی تبدیل کردیا گیا۔ یہ تجویز کسی نہ کسی ماسٹر نے دی ہوگی۔ اور ہزماسٹر وائس کے مصداق عمل ہوگیا۔ اب پاکستانی قوم یقیناًچیف جسٹس کو یاد کرے گی کوئی اچھے نام سے کوئی برے نام سے۔ ممکن ہے کسی عدالت میں مقدمہ بھی کردیا جائے کہ ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوا اور کسی عدالت میں آواز لگ جائے کہ ثاقب نثار حاضر ہو….. لیکن پاکستان کے پیچیدہ عدالتی نظام اور بڑوں کے لیے الگ فیصلے اور غریبوں کے لیے الگ فیصلے کرنے پر ملک بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے لاکھوں متاثرین میں تو اتنا دم نہیں کہ کسی عدالت میں سابق چیف جسٹس کے خلاف کوئی مقدمہ کرسکے۔ ہاں ایک بڑی عدالت موجود ہے جہاں وکیل تو کوئی ہوگا ہی نہیں کوئی فیس نہیں ہوگی۔ دلچسپ اور قابل اطمینان بات یہ ہے کہ مظلوموں کا وکیل خود اللہ تعالیٰ ہوگا۔ پھر تو آواز لگے گی….. میاں ثاقب نثار حاضر ہو….. وہاں تو حاضری بھی دینی ہوگی اور حساب بھی….. چیف صاحب نے کہا ہے کہ کسی کی دل آزاری کی ہو تو معافی مانگ کر جاؤں گا لیکن زیادتی، غلط فیصلے اور تاخیر سے فیصلوں کی کوئی معافی نہیں ہوتی۔ اس کی تیاری بھی کرلیں۔