پرانی طبّی سہولتوں کی بحالی !

176

وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا ہے کہ رواں سال سندھ میں 31ٹراما سینٹر فعال ہوجائیں گے ۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر نئی سہولیات کی فراہمی کے بجائے پرانی سہولیات کی بحالی کی بات کی جاتی ہے ۔ تعلیم اور صحت ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور اس کی فراہمی حکومت کا فرض ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبے میں تعلیم و صحت کی سہولیات میں اضافے کے بجائے عملی طور پر مسلسل کمی ہی ہورہی ہے ۔ تعلیم کے شعبے ہی کو دیکھ لیں ۔ سندھ حکومت ابھی تک بنیادی تعلیم کی سہولتیں ہی فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔ کاغذات میں جگہ جگہ اسکول قائم ہیں مگر عملی طور پر یہ وڈیروں کی اوطاقوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ اس پر کئی مرتبہ مفصل رپورٹیں بھی شایع ہوچکی ہیں مگر حکومت اس پر کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان بند تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی مسلسل جاری ہے ۔ سمجھنے کی بات ہے کہ جو حکومت پرائمری سطح پر اپنے صوبے کے لوگوں کو تعلیم نہ فراہم کرسکے وہ یونیورسٹی کی سطح پر کس طرح یہ سہولت فراہم کرسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار ی شعبے میں قائم یونیورسٹیاں ہمیشہ مالی مشکلات کا شکار رہتی ہیں ۔ ایسی ہی صورتحال صحت کے شعبے میں بھی ہے ۔ سندھ حکومت ہر برس اس مد میں اربوں روپے مختص کرتی ہے مگر نہ جانے یہ رقم کہاں جاتی ہے کیوں کہ ہر جگہ یہی پتا چلتا ہے کہ انتہائی بری صورتحال ہے ۔ نہ دوائیں میسر ہیں اور نہ ہی اسپتال میں داخل مریضوں کے لیے بستر کی چادریں وغیرہ جیسی سہولتیں ۔ کراچی میں جناح اسپتا ل کا شمار بڑے اسپتالوں میں ہوتا ہے اور یہ کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کی ایک بڑی آبادی کی خدمت کرتا ہے ۔ اس اسپتال کے مین دروازے پر ہی ہر وقت سیوریج کا پانی کھڑا رہتا ہے ۔ کئی کئی ہفتے پانی نہیں آتا اور مریضوں کے لواحقین اور ڈیوٹی ڈاکٹر و دیگر عملہ واش روم تک جانے کے لیے باہر سے پانی خرید کر لاتا ہے ۔ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے مندرجہ بالا بیان سے صورتحال کی بہترین عکاسی ہوتی ہے کہ سندھ حکومت ٹراما سینٹر بحال کرے گی ۔ یعنی پہلے سے موجود ٹراما سینٹروں کے علاوہ مزید نئے ٹراما سینٹر قائم نہیں کیے جارہے بلکہ پہلے سے قائم ٹراما سینٹر جو حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں یا ناقابل استعمال ہیں ، انہیں بحال کیا جائے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے ان وجوہ کا پتا لگایا جائے جن کی وجہ سے یہ ٹراما سینٹر قابل عمل نہیں تھے اور اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کی گئی رقم کو ٹھکانے لگانے کی آئندہ کسی کو ہمت اور جرات نہ ہو ۔ اگر ایک دفعہ بھی ایسا کرلیا گیا تو پھر آئندہ اسکول اور اسپتال بحال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ حکومت نئے اسکول اور اسپتال بنائے گی ۔