خلع اور فسخ نکاح

632

مفتی منیب الرحمن / دوسرا اور آخری حصہ

سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ثابت بن قیس بن شَمّاس کی بیوی نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: یارسول اللہ! ثابت کے دین اور اخلاق کے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، مگر یہ کہ میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر (ناشکری اور شوہر کی نافرمانی) سے ڈرتی ہوں، تو رسول اللہؐ نے فرمایا: کیا تم وہ باغ (جو ثابت نے نکاح کے وقت مہر میں دیا تھا) اسے واپس کر دوگی، اس نے عرض کی: جی ہاں! چنانچہ اس نے (مہر میں لیا ہوا) وہ (باغ) شوہر کو واپس کر دیا، رسول اللہؐ نے (ثابت سے) فرمایا: باغ قبول کرلو اور اسے ایک طلاق دے دو۔ (بخاری) بخاری میں اس سے اگلی روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے اسے (ثابت کو) طلاق کا حکم فرمایا اور ثابت نے طلاق دے دی، اس سے آگے ایک اور روایت میں ہے: نبی کریمؐ نے ثابت کو حکم فرمایا تو انہوں نے بیوی سے (بذریعہ طلاق) علیحدگی اختیار کرلی۔
یہ حدیث ’’فسخِ نکاح‘‘ سے متعلق نہیں ہے، یعنی یہ نہیں کہ رسول اللہؐ نے بحیثیتِ حاکم وقاضی نکاح فسخ فرمایا بلکہ آپ نے بیوی کو مہر واپس کرنے اور شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ فرمایا اور یہی خلع ہے۔ شریعت کا تقاضا ہے کہ جج صاحبان فسخِ نکاح کو آخری اور ناگزیر امکانی صورت کے طور پر اختیار کریں۔ جج کی پہلی ترجیح زوجین میں مصالحت، دوسری شوہر کو رضا کارانہ طلاق پر آمادہ کرنا اور تیسری دونوں کو خلع پر آمادہ کرنا ہونی چاہیے، کیوں کہ اگرچہ شریعت نے انتہائی ناگزیر صورتِ حال میں زوجین میں طلاق یا تفریق کی گنجائش رکھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام حلال امور میں یہ سب سے زیادہ اس کے غضب کا باعث ہے۔ رسول اللہؐ کو قاضی یا حاکم سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’نبی کو مومنوں پر اس سے زیادہ تصرف کاحق حاصل ہے، جتنا خود ان کو اپنی ذات پر ہے‘‘۔ (الاحزاب: 6) اس لیے رسول اللہؐ کا فیصلہ بہرحال نافذ ہے اورآپؐ وجوہ بتانے کے پابند بھی نہیں ہیں، جبکہ عام جج اور حاکم کی ولایت شرعی حدود کی پابند ہے۔ فقہِ حنفی میں ’’عدالتی فسخِ نکاح‘‘ کے بارے میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور احتیاط میں یہ شدّت اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ یہ حلال وحرام کا مسئلہ ہے، تاہم اءِمّۂ ثلاثہ کے نزدیک بعض قیود کے ساتھ اس کی گنجائش موجود ہے اور فقہِ حنفی میں بھی یہ اصول مُسَلّم ہے کہ شدید ضرورت کی بنا پر فسخِ نکاح کے لیے دوسرے اءِمّہ کے قول پر فیصلہ دیا جاسکتا ہے، ان میں سے چند صورتیں یہ ہیں:
شوہر بے انتہا مارپیٹ کرتا ہے، جسمانی وذہنی اذِیّت میں مبتلا رکھتا ہے، نہ حقوق ادا کرتا ہے نہ طلاق دے کر گلوخلاصی کرتا ہے، بس اسے معَّلق رکھنا چاہتا ہے یا شوہر نان نفقہ نہیں دیتا اور بیوی کے پاس کفالت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہیں ہے، عجز کی بنا پر بیوی کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے یا شوہر کسی مُوذِی مرض میں مبتلا ہے، جیسے برص وجذام یا کینسر وغیرہ اور نکاح کے وقت بیوی کو معلوم نہیں تھا، اسے دھوکے میں رکھا گیا تھا، بعد میں اس پر یہ حقیقت ظاہر ہوئی، اگر وہ اس کے باوجود رشتۂ ازدواج کو قائم رکھنا چاہے تو یہ اس کے لیے سعادت کی بات ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت میں اجر پائے گی، لیکن اگر وہ کسی طور پر بھی آمادہ نہ ہو تو جج نکاح فسخ کر سکتا ہے یا شوہر کو خدانخوستہ طویل قید (جیسے پندرہ سال یا عمر قید) ہوگئی ہے اور بیوی جواں عمر ہے، اس کے لیے اپنے فطری جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے حدودِ شرع میں رہنا ممکن نہیں ہے اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے یا کوئی اس کا کفیل نہیں ہے یا شوہر بلاسبب طویل عرصے تک حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرتا یا شوہر مجنون ہوگیا، مناسب وقت گزرنے پر بھی علاج سے صحت یاب نہ ہوسکا، اس کے جنون سے بیوی کے جسم وجاں کو خطرہ لاحق ہے یا وہ اب حقوقِ زوجیت کی ادائیگی اور بیوی کی کفالت کا اہل ہی نہیں رہا وغیرہ۔ لیکن ان تمام صورتوں میں جج صاحب کو وجوہ ریکارڈ پر لانی ہوں گی اور یہ کہ عدالت میں مدعیہ کے یہ الزامات درست ثابت ہوئے، بعض امور میں ماہرین کی رائے درکار ہوتی ہے۔ فسخ نکاح اور خلع میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ خلع میں عورت مہر کی معافی یا کسی اور شے کے عوض میں مرد سے طلاق لیتی ہے، جبکہ فسخِ نکاح میں اگر قاضی مذکورہ وجوہات میں سے کسی سبب نکاح ختم کرتا ہے تو اس میں مہر کی معافی نہیں ہوتی، مرد پر مہر کی ادائیگی لازم ہی رہے گی۔
آخر میں میری دردمندانہ گزارش ہے کہ اگر کوئی عورت خدانخواستہ خوفِ خدا سے عاری ہے، اس پر نفسانی خواہشات یا ہوسِ زر کا غلبہ ہے یا عشرتوں کی دلدادہ ہے اور کسی بھی قابلِ قبول سبب کے بغیر شوہر کے ساتھ بہر صورت رہنے کے لیے تیار نہیں ہے، تو ایسی صورتِ حال میں شوہر کو چاہیے کہ وہ رضاکارانہ طور پر خُلع پر آمادہ ہوجائے یا یک طرفہ طور پر طلاق دیدے، اس پر وہ عنداللہ اجر کا حق دار ہوگا اور عورت فتنے اور گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائے گی اور اگر شوہر رضاکارانہ طور پر اس پر آمادہ نہ ہو تو عدالت مناسب دباؤ ڈال کر اس سے طلاق دلوائے۔ اپنی رائے کو عینِ اسلام اور غالب اکثریت کے فقہی موقف کو مسلکی عصبیت قرار دینا قرینِ انصاف نہیں ہے، اِمرأۃ ناشزہ (نافرمان عورت) اور زوجِ متعنِّت (اذیت رساں مرد) دونوں معاشرے کے ناسور ہیں۔ شہری زندگی میں برادریوں کی گرفت اور معاشرتی دباؤ بھی بے اثر ہوچکا ہے، بعض اوقات مظلوم عورت کے احوال سن کر دکھ ہوتا ہے، اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو مذہبی حدود کے اندر رہتے ہوئے جامع قانونی مسودہ مرتب کرنا چاہیے۔