نیب کی ناقص کارکردگی پر سرزنش

188

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے بجا طور نیب کو سرزنش کی ہے کہ دو دو سال تک تحقیقات کی جاتی ہے ۔ اس دوران سرکاری افسران کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے ۔ انہیں زیر حراست رکھا جاتا ہے مگر ان کا چالان عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا ۔ اس عرصے میں اگر سائل عدالت سے رجوع کرلے تو کہا جاتا ہے کہ مذکورہ افسر مشکوک تھا ، اب مطلوب نہیں ہے ۔ اس عرصے میں اس افسر کے ساتھ ساتھ اس کے اہل خانہ کی سماجی زندگی بھی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے جس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے ۔ بہتر ہوگا کہ عدالت نیب اور اس قبیل کے سارے ہی تحقیقاتی اداروں کو پابند کرے کہ وہ اس وقت تک کسی بھی افسر کو حراست میں نہ لیں ،جب تک ان کے پاس قرار واقعی ثبوت موجود نہ ہوں ۔ مزید یہ کہ حراست میں لینے کے بعد بھی ایک مدت مقرر کی جائے جس میں اس افسر کا چالان عدالت میں جمع کروایا جائے ۔ اگر کسی افسر کی کرپشن عدالت میں ثابت نہ ہو تو اس کے تفتیشی افسر پر جھوٹا مقدمہ درج کرنے پر عدالتی کارروائی کی جائے ۔ اس بارے میں اسلام واضح احکام دیتا ہے کہ اگر کوئی کسی فرد پر الزام لگائے اور اسے ثابت نہ کرسکے تو الزام لگانے والے کو 80 درے مارے جائیں اور اس کی گواہی کبھی تسلیم نہ کی جائے ۔ پاکستان میں تو عجیب و غریب معاملہ ہے ۔ جسے چاہیں ، اُسے اُس کے گھر سے علی الاعلان اٹھا کر لے جائیں اور پھر وہ لاپتا افراد کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے ۔ اس کی وجہ بھی پولیس اور اس جیسے اداروں کی نااہلی ہے کہ وہ اس فرد کے بارے میں کوئی جرم ثابت نہیں کرسکتے ، اس لیے لاپتا افراد کی فہرست روز طویل سے طویل ہوتی جاتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیب اور دیگر تحقیقاتی ادارے ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے ان سے خود وصولی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ نیب اور اس طرح کے دیگر تحقیقاتی اداروں کے عملے اور افسران کے اثاثوں اور ان کے معیار زندگی کی کڑی چھان بین کی جائے تاکہ بدعنوانی کو فروغ دینے والوں کا پہلے قلع قمع کیا جاسکے ۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے دوران سماعت نیب کے افسران کو ڈانٹ ڈپٹ تو کردی ہے مگر امید نہیں ہے کہ نیب یا اس طرح کے دیگر اداروں کا قبلہ درست ہو پائے گا ۔ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستانی عدالتوں کی بے بسی ہے ۔ عدالتیں احکامات جاری کردیتی ہیں مگر انتظامیہ ان پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتی ہے ۔ جمعہ ہی کے اخبار میں خبر ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو اورجسٹس کے کے آغا پر مشتمل بنچ نے ایف آئی اے اور پولیس سے لاپتا بچوں کے بارے میں 31 جنوری تک رپورٹ طلب کرلی ہے ۔سماعت کے دوران پولیس نے اس امر کا اعتراف کیا کہ تاحال 18 بچوں کی بازیابی میں ناکامی ہوئی ہے ۔ اس موقع پر جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیے کہ حکم دینے کے باوجود بچوں کو بازیاب نہیں کروایا جارہا ہے ۔ ڈی آئی جی کرائم برانچ نے بتایا کہ ایک بچی عاصمہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ بلوچستان میں ہے ۔ بچی عاصمہ کی ماں نے عدالت میں زار و قطار روتے ہوئے بتایا کہ ان کی بچی چھ سال سے غائب ہے اور پولیس کچھ نہیں کررہی ۔اغوا کیے جانے والے بچوں یا اداروں کی جانب سے لاپتا افراد کی فوری بازیابی کے بارے میں عدالت عظمیٰ یا عدالت عالیہ نے کوئی پہلا حکم جاری نہیں کیا ہے چیف جسٹس افتخار چودھری کے زمانے سے لے کر اب تک بے شمار مرتبہ ڈیڈ لائن دی گئیں اور فیصلے دیے گئے ، مگر انتظامیہ نے ان فیصلوں کو ہوا میں اڑا دیا ۔ انتظامیہ کی ڈھٹائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کیس میں عدالت عظمیٰ نے2013 میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی اہلیت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا ۔ اسی سماعت کے دوران میں عدالت عظمیٰ نے پاکستان اسٹیل میں کرپشن کی تحقیقات ایف آئی اے سے لے کر نیب کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی حکم میں نیب کو یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ تحقیقات تین ماہ میں مکمل کرکے عدالت میں رپورٹ پیش کرے اور ہر پندرہ دن کے بعد اپنی پیش رفت سے عدالت کو آگاہ رکھے ۔ چھ برس سے زاید عرصہ گزرنے کے باوجودنہ تو نیب نے عدالت عظمیٰ میں کوئی پیش رفت رپورٹ جمع کروائی اور نہ ہی تین ماہ کی مدت اب تک ختم ہوئی ہے کہ اس بارے میں عدالت میں کوئی رپورٹ جمع ہوتی اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملتی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ اور تحقیقاتی ادارے صرف اور صرف مجرموں کے تحفظ کی ذمے داری اٹھائے ہوئے ہیں اور اسے بہ احسن ادا کررہے ہیں ۔ جس روز سے کوتاہی کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ، اس روز سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔ عدالت بھی اگر اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے رکاوٹ ڈالنے والے افسران کو سزا دینا شروع کردے تو شاید حالات کچھ بہتر ہوجائیں اور عدلیہ کا تقدس بھی بحال ہوسکے ۔