سیاسی کھوجی

233

اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا حالیہ اجلاس علامہ اقبال آڈیٹوریم میں منعقد ہوا جس میں مختلف موضوعات پر مشاورت ہوئی اور حالات کی بہتری کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ ماہرین کے خیال کے مطابق پاکستان دشمن قوتیں زبان، نسل اور مذہب کی بنیاد پر انتشار پھیلا رہی ہیں۔ انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو پاکستان کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ کہتے ہیں جنگ اور سیاست میں ہر حربہ جائز ہوتا ہے سو، اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہر تخریب میں تعمیر کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھ لو! کہ انڈیا کے الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ وطن عزیز کا حکمران طبقہ اپنے سیاسی حریفوں کی کرپشن ہی پر نظر رکھتا ہے اور زیب داستان کے لیے اوچھے ہتھکنڈے بڑی بے رحمی سے بروئے کار لانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتا مگر مقامی اور عالمی مصنوعات ساز کمپنیاں وطن عزیز کے عوام کے ساتھ جو سلوک کررہی ہیں ان کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ انٹرنیشنل اور مقامی کمپنیوں نے کرپشن کا جو بازار گرم کر رکھا ہے حکمران طبقہ محسوس کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔ عادل اعظم پاکستان نے انڈین ٹی وی چینل دکھانے پر پابندی عاید کررکھی ہے، حالاں کہ وہ اس حقیقت سے لاعلم نہیں ہوسکتے کہ ہمارے ہاں ایسے ماہرین کی کمی نہیں جو انڈین ٹی وی چینلوں کے تمام پروگرام پاکستان ٹی وی پر دکھانے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں سو، اسی صلاحیت کی بدولت انڈین ٹی وی چینل پاکستان میں دیکھے جارہے ہیں، ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وطن عزیز کے لوگوں کو اپنے حکمرانوں کی ذہنیت اور ہوس زر کا علم ہوتا رہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو سیاست دانوں کی
کرپشن تو دکھائی دیتی ہے مگر مصنوعات سازکمپنیوں کی لوٹ مار دکھائی نہیں دیتی۔ شاید اسی وجہ سے تحریک انصاف کی کامیابی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں، ان کی پالیسیوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ قوم کے غم میں دبلے ہونے والے حکمرانوں نے کبھی اس امر پر غور نہیں کیا کہ پاکستان میں سن سلک کا جو ساشا پانچ روپے میں فروخت کیا جارہا ہے انڈیا میں اس کی قیمت ایک روپیہ ہے۔ بھارت میں 100 گرام چائے کی پتی کا پیکٹ 20 سے 30 روپے میں بک رہا ہے مگر پاکستان میں اس کی قیمت 95 تا 110 روپے ہے اور اس پیکٹ میں چائے کی پتی بھی 95 گرام ہوتی ہے، آدھے کلو ایریل کا پیکٹ ہمارے ہاں 140 روپے میں ملتا ہے اور انڈیا میں اس کی قیمت 64 روپے ہے۔ جیلٹ ریزر جس سے سات شیو باآسانی بنائے جاسکتے ہیں انڈیا میں صرف 10 روپے میں فروخت ہوتا ہے مگر پاکستان میں اس کی قیمت 90 روپے ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی کمپنی کی مصنوعات کی قیمتوں میں اتنا فرق کیوں پایا جاتا ہے، اسی طرح ادویات کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ فرق موجود ہے۔ عادل اعظم پاکستان میں آئے دن مختلف معاملات پر ازخود نوٹس لیتے رہے ہیں مگر اس لوٹ مار پر کبھی سوموٹو کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ حالاں کہ اس کا تعلق قوم کی قوت خرید سے ہے، ہمیں توقع ہے کہ نئے چیف جسٹس پاکستان اس اہم مسئلے پر ازخود نوٹس لیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ اہل ہند کی نفسیات اور ان کے حالات سے خوب واقف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ اس لوٹ مار سے واقف کیوں نہیں! یہ ان کی لاعلمی اور بے خبری نہیں، اصل وجہ ہے کہ حکمران کوئی بھی ہو قوم کی بدحالی پر توجہ دینا ہی گوارا نہیں کرتا صرف پیش رو حکمرانوں کی کرپشن اور سیاسی غلطیوں کی کھوج میں حکمران کم کھوجی زیادہ بن جاتے ہیں۔