کیمرون منٹر پاک امریکا تعلقات کے ایک ہنگامہ خیز دور میں اسلام آباد میں امریکی سفیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس مشکل دور میں انہیں اپنی بات کو سلیقے اور دھیمے لہجے میں کرنے کے فن کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ ایک اچھے سفارت کار کی پہچان بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ دو ملکوں کے تعلقات میں جلتی پر تیل ڈالنے کے بجائے آگ بجھانے کی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ کیمرون منٹر کو اسلام آباد سے واپس گئے ہوئے برسوں گزر گئے مگر ان دنوں وہ پاکستان میں دیکھے جارہے ہیں۔ اسی دوران انہوں نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک امریکا تعلقات کا رونا رویا اور ایسا کرتے ہوئے فطری طور پران کا جھکاؤ اپنے ملک کی طرف بہت واضح انداز میں دکھائی دے رہا ہے مگر پاکستان میں گورننس اور فنڈز کے غلط استعمال کے حوالے سے انہوں نے اپنا تجربہ اور مشاہدہ بھی بیان کیا۔ کیمرون منٹر کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان گڈ گورننس پر کام کرے۔ پاکستان کو امریکا کے فنڈز کو دیانت دارانہ انداز میں خرچ کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے سندھ کے صوبے کو بھی تعلیم کی مد میں بہت پیسا دیا مگر سارا پیسا درست انداز میں استعمال نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا جب میں سفیر تھا تو اس وقت دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ مشرف دور میں بھی پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پیسے دیے گئے۔
امریکا کو لگتا ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا۔ کیمرون منٹر کا مجموعی دکھڑا اپنی جگہ اور اس سے اختلاف کی پوری پوری گنجائش موجود ہے مگر ان کی اس بات میں خاصا وزن ہے کہ پاکستان کو اب گڈ
گورننس کی طرف جانا چاہیے۔ انہوں نے سندھ حکومت کو تعلیم کے فنڈز دینے اور ان فنڈز کا غلط استعمال ہونے کی گواہی بھی دی جس سے پاکستان میں جاری موجودہ احتسابی عمل کو ایک جواز بھی مل رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے امریکا نے سویلین اور فوجی حکمرانوں پر خوب نوازشات کیں۔ این جی اوز کے ذریعے ان پر دھن آسمانوں سے برسایا مگر دونوں ادوار میں یہ پیسہ ہماری اخلاقی گراوٹ اور بدعنوانی اور اشتہاء کو بڑھانے کے سوا کسی مجموعی بھلائی اور خیر کا باعث ثابت نہ ہوا۔ جنرل مشرف کے دور میں کرپشن ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک الگ طبقے کے لیے مواقع اور امکانات کی صورت جلوہ گر ہوئی۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ امریکا نے پاکستان کو جس انداز سے پیسا دیا اس میں پیسے کے غلط استعمال کی گنجائش بھی جان بوجھ کر رکھی گئی۔ جان بوجھ کر اس لیے پاکستان کو ترقی سے ہمکنار کرنے
سے زیادہ امریکا کا مقصد پاکستانی عوام کے اندر اپنے دوستوں اور ہمنواؤں کا حلقہ پیدا کرنا تھا اسی لیے امریکا نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ ان کی دی گئی رقم کا درست استعمال ہورہا ہے یا نہیں۔ انہیں اس وقت بخوبی معلوم تھا کہ ان کی دی گئی رقم کا غلط استعمال ہورہا ہے مگر وہ اس پر چپ سادھے رہتے تھے۔ امریکا نے پاکستان میں امداد کی شفافیت کے لیے احتساب کے مضبوط نظام پر زور دینے کے بجائے پاکستانی سیاست کی اُلجھی زلفیں سلجھانے ہی میں دلچسی لی۔ حد تو یہ کہ پاکستانیوں کو دیکھ کر امریکی اور دیگر مغربی ممالک کے ادارے اور افراد بھی اپنی فراہم کردہ رقم سے اپنا حصہ وصول کرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا تو کیمرون منٹر نے فنڈز کے مس یوز کی گواہی دی۔
پاکستان کا المیہ ہی وائٹ کالر جرم ہے۔ معززین قوم نے قیادت اور سیادت کا چولا پہن کر جرم کو اس سائنسی انداز میں انجام دیا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وائٹ کالر جرم کو ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں جائداد، کاروبار، اکاونٹ چیخ چیخ کر اپنے مشکوک ہونے کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں مگر ریاست اپنے تمام وسائل کے استعمال کے باجود حقیقت کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنیک عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں کو چکرا کر رکھ دیتی ہے۔ اب تو عدالت نے بھی وائٹ کالر کرائم کی سزا کے طور پر چینی طریقہ کار کی طرف اشارہ کرنا شروع کیا ہے کہ جہاں ایسے مجرم کی سزا موت ہوتی ہے۔
پاکستان کے احتسابی نظام میں جو سختی آج دیکھی جا رہی ہے وہ شاید چینی ماڈل کا پرتو ہے۔ ایسا ہو نہیں ہو سکتا کہ چین کا اربوں کا سرمایہ ملک میں آئے مگر اس رقم کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا چینی نظام نہ آئے۔ امریکی اب اپنے پیسے کے ضیاع کا رونا روتے تھے مگر جب یہ پیسہ غلط استعمال ہورہا تھا تو وہ پاکستان کے بااثر طبقات کو احسان مند بنانے اور ان کی نظروں اور سروں کو نیچا رکھنے کے شوق میں اس پیسے کے غلط استعمال کو نظر انداز کرتے تھے۔ جب ریاست اس پیسے کی واپسی کے لیے کسی طاقتور پر ہاتھ ڈالتی بھی تھی تو اکثر مواقع پر امریکی سفیر ہی حرکت میں آکر صلح صفائی کے نام پر این آر اوز کا ڈول ڈالتے تھے۔ اس طرح احتساب کا عمل ہمیشہ ادھورا ہی رہتا تھا۔ اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی پاکستان کی حقیقی ترقی کے بجائے محض اس کی فکری اور نظریاتی کایا پلٹ اور حلقہ یاراں بڑھانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس کے برعکس چینی پاکستان کو ایک ترقی پسند اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ رقم اور منصوبے دینے کے ساتھ ساتھ مضبوط احتسابی نظام کے حامی بھی نظر آرہے ہیں۔ کیمرون منٹر کی بات کو ہی پیمانہ بنائیں تو موجودہ احتسابی عمل اور اس دوران سامنے آنے والی ہوش رُبا کہانیاں محض افسانہ معلوم نہیں ہوتی بلکہ بے ساختہ ان پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔