حکومتی معاشی ٹیم ملکی معیشت کو پٹڑی پر لانے کے لیے لاکھ جتن کر رہی ہے مگر کبھی گیس کا بحران سامنے آجاتا ہے تو کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ، امپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکس بڑھاتے ہیں تو قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ٹیکس کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ریونیو کا شارٹ فال پیدا ہو جاتا ہے۔ یو اے ای اور سعودی عرب سے کئی ارب ڈالر آنے کے باوجود بھی حالات سنبھلنے میں نہیں آرہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے اور معاشی استحکام لانے کی غرض سے حکومت کی توجہ بیرونی سرمایہ کاری پر بھی مرکوز ہے۔ حکومتی معاشی ٹیم مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دوست ممالک کی حکومتوں سے اعلیٰ سطح پر رابطے کرنے اور سرمایہ کاری کے معاہدوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔ لیکن مالی سال 2018-19ء کے شروع کے پانچ ماہ کے جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق حکومتی کوششوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی مالیت 880 ملین ڈالر ہے۔ جب کہ نواز دورِ حکومت میں اسی عرصے میں بیرون سرمایہ کاری کا حجم 1.3 ارب ڈالر تھا۔ اس کے علاوہ حکومت نے عوام کو یہ خوشخبریاں بھی سنائی ہیں کہ ایکسون موبل جو امریکی کمپنی ہے وہ بہت جلد پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی ہے۔ کوکا کولا نے بھی عمران خان سے ملاقات کے بعد 1.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح پاک سوزوکی موٹر کمپنی اپنے پلانٹ کی وسعت کے لیے 450 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والی ہے جب کہ اس میں حقیقت یہ ہے کہ پاک سوزوکی اور ایکسون موبل Exxcm mobil سے مذاکرات نواز حکومت سے چل رہے تھے جو اب حتمی شکل میں آنے والے ہیں اس کے باوجود بھی اگر یہ تمام سرمایہ داری واقعتاً ہو جاتی ہے تو اس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا اور ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی اور حکومت کے پاس بھی کہنے کے لیے کچھ ہو گا۔
اس وقت دنیا کے تمام ہی ترقی پزیر ممالک بیرونی سرمایہ کار کو اپنے ملک میں لانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور مختلف ممالک کی تیزرفتار ترقی میں اس کا اہم کردار ہے کیوں کہ اس سے نہ صرف میزبان ملک کو زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے بلکہ جب ایک ملٹی نیشنل کمپنی ایک چھوٹے ملک میں آکر کاروبار کرتی ہے تو اس کے لیے نئی مشینری اور نئی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے اس طرح اس ملک کے وہ ملازمین جو ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں انہیں نئی مشینری اور نئی ٹیکنالوجی کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے ان کی تعلیم تربیت، صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اگر وہ کمپنی کچھ نئی اشیاء اس ملک میں متعارف کرا رہی ہو تو لوگوں کو نئی اور جدید اشیاء کو استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے پاکستان میں پیزاہٹ، میکڈونلڈ، برگر اور کے ایف سی فرائیڈ چکن اس کی مثالیں ہیں ورنہ ان کمپنیوں سے پہلے پاکستانی ان اشیاء سے ناواقف تھے۔
لیکن دوسری طرف مقامی طور پر چھوٹے کاروباری لوگ جو ایک ملک میں عام کام کر رہے ہوتے ہیں بیرونی سرمایہ کاری سے چھوٹے کاروباری لوگ کو اپنا کاروبار چلانا مشکل ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ کاروبار آہستہ آہستہ بند ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک طرف بیرونی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی نئی ملازمتیں پیدا کر رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف بہت سی ملازمتیں ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیرونی سرمایہ کار کو حکومت کچھ ایسی مراعات دے دیتی ہے مثلاً خام مال کی درآمد میں رعایت، منافع پر ٹیکس میں رعایت وغیرہ جو مقامی کاروبار کو حاصل نہیں ہوتیں ایسی صورت میں مقامی بزنس کیسے مقابلہ کر سکے گا۔ پاکستان میں سی پیک کے پروگرام میں جو نئے ہائی وے بنائے گئے ہیں ان کے ساتھ ساتھ اسپیشل اکنامک زون (SEZ) بھی قائم کیے جارہے ہیں۔ مختلف اکنامک زون مخصوص صنعتوں کے لیے متعین ہیں لیکن اگر ان میں سرمایہ کاری باہر سے ہوتی ہے اور انہیں پرکشش مراعات دی جاتی ہیں اس کا منفی اثر مقامی صنعت پر پڑے گا۔ چنانچہ اب حکومت ان اکنامک زون کے لیے مقامی سرمایہ کاروں کو کاروبار کے لیے راغب کر رہی ہے۔ لیکن بدلتی ہوئی صورت حال میں مقامی سرمایہ کار کے لیے بھی آگے بڑھنا مشکل ہے ایک طرف بلند شرح سود اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گیا ہے دوسری طرف مستقبل قریب میں بجلی اور گیس کی مسلسل فراہمی بھی مشکوک ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کاروبار شروع کرنے کے لیے طویل قانونی پیچیدگیاں نئے کاروبار شروع کرنے میں مزاحم ہیں ایسے میں نہ تو مقامی سرمایہ کار آگے آئے گا اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کار ہمارے ملک میں دلچسپی لے گا۔
معیشت کے نقطہ نظر سے یہ حقیقت واضح ہوتی جارہی ہے کہ چار پانچ ماہ گزرنے کے بعد ہی حکومت واضح سمت اور واضح پالیسی متعین نہیں کر سکی ہے اور موجودہ حکومت کے لیے عوام نے جو خواب دیکھے تھے وہ چکنا چور ہوتے جارہے ہیں۔