شریف برداران بظاہر حالات کے بھنور کا شکار ہیں۔ میاں نوازشریف تو باقاعدہ قید کاٹ رہے ہیں اور شہباز شریف بھی تحقیق وتفتیش کے ساتھ قید ورہائی کی بھول بھلیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ شہباز شریف بظاہر میاں نوازشریف کی کرسی پر تشریف فرما ہیں مگر حقیقت میں ان کے حالات کا تعلق سیاست میں بالخصوص ن لیگ کی سیاست میں شہباز ڈاکٹرائن کے ظہور سے ہے۔ یہ مرحلہ کبھی پیپلزپارٹی کو اس وقت درپیش رہ چکا ہے جب بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری پارٹی کی کمانڈ سنبھال رہے تھے۔ وہ بھٹو ڈاکٹرائن کو زرداری ڈاکٹرائن میں با آسانی تبدیل کرنے میں کامیاب بھی رہے تھے۔ قریب قریب وہی مرحلہ مسلم لیگ ن کو بھی درپیش ہے۔ شہباز شریف کو مسلم لیگ ن میں اپنی مفاہمانہ اور عملیت پسندی پر مبنی سوچ کو قبولیت عامہ کے مرحلے تک لانا ہے۔ اس کے لیے شہباز شریف کو دائیں بائیں سے اور مسلم لیگ ن کے حلقوں سے باہر بھی مدد کی ضرورت ہے جو مختلف انداز سے حاصل ہو رہی ہے۔ یہ واقعی ان کی زندگی کا ایک مشکل مرحلہ ہے جب بڑے بھیا کی پرچھائیں کے طور پر سیاست کرنے والے شہباز شریف کو از خود ایک وجود اور حقیقت بن کر سامنا آنا ہے۔ اپنی سیاست کے اس اہم ترین موڑ پر میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جہاں حکومت پر کڑی تنقید کی وہیں انہوں نے سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے ملنے والی مالی امداد کا سہرا آرمی چیف کے سر باندھا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس امداد میں عمران خان کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ سپہ سالار کے باعث ممکن ہوا۔
جاں بہ لب ملکی معیشت میں دوستوں کی امداد سے جان پڑ چکی ہے۔ اس فوری امداد کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک فوری طور پر دیوالیہ ہونے اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں خوار ہونے سے بچ گیا۔ سانس لینے اور ٹھیر کر سوچنے کو کچھ اور لمحات میسر آگئے ہیں۔ اب اس عارضی ہی سہی مگر انتہائی اہم ریلیف کا سہرا کسی وردی پوش کے سر سجے یا شیروانی پوش کے اس بات کی چنداں اہمیت نہیں۔ اگر یہ سب سپہ سالار کے باعث ممکن ہوا تب یہ ماضی قریب کی سویلین حکومتوں کے لیے لمحہ فکر ہے کہ وہ اپنے اپنے ادوار کے سپہ سالاروں کی صلاحیتوں اور ان کی ادارہ جاتی طاقت اور پوٹینشل سے فائدہ کیوں نہ اُٹھا سکے۔ آصف علی زرداری نے صدر منتخب ہوتے ہی سعودی عرب میں احباب پاکستان کلب کے نام سے ایک سرگرمی کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش کا مقصد پاکستان کی ساتھ اچھے تعلقات رکھنے والے ملکوں کو مالی امداد پر آمادہ کرنا تھا۔ یہ بیل آغاز ہی میں منڈھے نہ چڑھ سکی تھی اور احبابِ پاکستان نے پاکستان کی مالی امداد میں زیادہ گرم جوشی نہیں دکھائی تھی۔ اس عدم دلچسپی کی وجہ کیا تھی؟ یہ ایک معما ہے۔ عمومی طور پر یہی سمجھا گیا تھا کہ اس عدم دلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ مالی معاملات میں پاکستان کا امیج بری طرح بگڑ چکا تھا۔ احتساب کا موثر قانون نہ ہونے کی وجہ سے احبابِ پاکستان کو اپنی رقم کے درست استعمال ہونے کا یقین نہیں تھا یا وہ اس حوالے سے بڑی حد تک متذبذب تھے۔ سیلابوں اور زلزلوں میں ملنے والی مالی امداد میں شفافیت کا خیال نہ رکھنے کی روش نے پاکستان کے حکومتی سسٹم سے دنیا کا اعتماد ختم کر دیا تھا۔ سعودی عرب جیسا ملک کھجور کا دانہ بطور عطیہ دینے سے کترارہا تھا۔ مسلم لیگ ن کے دور میں حالات میں کچھ بہتری آئی اور مگر ملکی اداروں میں کرپشن کا عنصر پوری طرح موجود رہا۔ جس سے مجموعی طور ملک کی ساکھ بہتر نہ ہو سکی۔ ان ادوار کے سپہ سالار بھی اسی فوج کے سربراہ تھے۔ ان کی شخصیات میں بھی یہی دبدبہ تھا اور دوسرے ملکوں میں پاکستانی فوج کی عزت اور اہمیت کا اتنا ہی انداز ہ تھا جس قدر آج ہے۔
خطے کی جیو اسٹرٹیجک صورت حال میں پاکستان فوج کی اہمیت بھی آج سے کسی طور کم نہیں تھی۔ اس وقت کے سپہ سالار بھی محب وطن تھے اور ملکی معیشت کو نئی جان اور توانائی دینا چاہتے تھے مگر کیا وجہ ہے کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ بیرونی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرسکے؟ اور ملکی معیشت عذابِ جانکنی میں مبتلا رہی۔ اس کی بظاہر دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ ہمارا نظام موثر احتساب سے عاری تھا۔ جس کی وجہ سے بدعنوانی ہمارے نظام کی رگ وریشے میں سرایت کر گئی تھی۔ بیرونی دنیا بھی امداد سے کترا رہی تھی اور اس وقت کا سپہ سالار بھی بیرونی دنیا میں اپنی شخصی اور ادارہ جاتی ضمانت دینے سے کتراتا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سویلین حکومت اپنا گھر اور انتظامی معاملات ٹھیک کرنے کے بجائے سب سے پہلا کام ہی فوج کا ادارہ جاتی اثر محدود کرنا ہوتا تھا جس سے فوج اور سول حکومت میں کھٹ پٹ چلتی رہتی تھی اور حالات میمو گیٹ اور ڈان لیکس جیسی حد تک پہنچ جاتے تھے۔ اب اگر شہباز شریف اس ساری صورت حال کا کریڈٹ سپہ سالار کو دیتے ہیں تو پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ ماضی کے دونوں تاثر اب بڑی حد تک تبدیل ہو گئے۔
پاکستان کے موثر نظام احتساب نے بیرونی دنیا اور خود سپہ سالار کا اعتماد بڑھا دیا ہے کہ ان کی سفارش سے جو پیسہ آئے گا وہ اعلیٰ وبالا ایوانوں میں طے ہونے والے معاملات کی نذر نہیں ہو گا۔ یہ اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ سویلین ملٹری کھینچا تانی بھی ختم ہو گئی ہے اور فریقین سچ مچ ایک صفحے پر آچکے ہیں۔ یہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جیسی تصوراتی اور دیومالائی قسم کی سوچ کے بجائے خود شہباز شریف کی عملیت پسندانہ سوچ کی کامیابی کا ایک ثبوت ہے۔ حقیقت یہ ہے فوج پاکستان کا سب سے منظم اور بڑا ادارہ ہے جو ایک نظام کے تحت کام کرتا ہے اور جس کے اندر جواب دہی کا اپنا نظام بھی ہے۔ دوران اقتدار، دوران جنگ وآپریشن اس ادارے سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں جو تعبیر کی بھی تھیں اور تدبیر کی بھی مگر اس کی دفاعی اور جیو اسٹرٹیجک معاملات کی طاقت بھی دنیا میں مسلمہ ہے۔ ہماری سویلین حکومتوں کو اس طاقت کو اپنی طاقت بنانا چاہیے تھا مگر افسوس کی وہ اسے اپنی کمزوری بناتے رہے۔ اس کمزوری اور احساس کمتری میں ہماری سویلین حکومت اپنی اسٹیبلشمنٹ سے بھاگ کر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے پناہ لیتی تھی۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ انہیں اسی دہائی کے افغان حکمران ’’ببرک کارمل‘‘ کی طرح ٹینکوں پر بٹھا کر اسلام آباد کے ایوانوں تک تو پہنچانے سے رہے وہ دباؤ دھونس اور سفارش سے ہی کام چلا سکتے تھے سو ایسا کر گزرتے تھے مگر اس شاید کوئی سہولت تو پیدا ہو رہی تھی مگر فریقین کے درمیان بداعتمادی کم نہیں ہوتی تھی۔ یوں سپہ سالار کو شہباز شریف کا سلام بجا مگر سوال یہ ہے کہ کیا پس از سلام کی کہانی دہرائے جانے سے توبہ تائب ہونے کا وقت آن پہنچا ہے؟۔