فوجی عدالتوں کی ضرورت؟

271

فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر پیپلزپارٹی نے مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ فوجی عدالتیں تو پہلے ہی سے ہی قائم ہیں تاہم جنوری 2015 میں فوجی عدالتوں کو سویلین کا مقدمہ سننے اور انہیں سزائیں دینے کا اختیار دیا گیا ۔ اس کے تحت پورے ملک میں سات فوجی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ یہ اختیار پارلیمنٹ سے منظور شدہ 21 ویں ترمیم کے ذریعے دیا گیا ۔ فوجی عدالتوں کی مدت دو سال رکھی گئی تھی ۔ 2017 میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت ختم ہونے پر انہیں مزید دو سال کے لیے توسیع دی گئی تھی ۔ اب یہ مدت ایک مرتبہ پھر مارچ 2019 میں ختم ہورہی ہے ۔ حکومت نے فوجی عدالتوں میں دوسری توسیع کا بل رسمی منظوری کے لیے کابینہ بھیج دیا ہے جس کے بعد اسے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ میں پیش کردیا جائے گا ۔ جس وقت فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا ، اسی وقت اسے ملک کے عدالتی نظام کے متوازی نظام قرار دیا گیا تھا ۔ تاہم اس کی حمایت کرنے والوں کا موقف تھا کہ اس کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات تیزی کے ساتھ نمٹائے جاسکیں گے اور دو سال میں جب دہشت گردی کے سارے کیس نمٹ جائیں گے تو ان فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ 2017میں ان عدالتوں کی پہلی توسیع کے موقع پر بھی یہی موقف اپنا یا گیا ۔پاکستان کا ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ جو بھی عارضی حل تجویز کیا جاتا ہے ، اس کے خاتمے کی کبھی نوبت نہیں آتی ۔ سندھ میں سرکاری ملازمتوں میں دیہی اور شہری علاقوں کا کوٹہ اس کی ایک مثال ہے ۔ فوجی عدالتیں بھی اسی نہج پر جارہی ہیں کہ ہر دو برس کے بعد اس میں توسیع ہوتی رہے گی اور بس ۔ فوجی عدالتوں کے قیام کو چار برس مکمل ہونے کو ہیں مگر ان کی کارکردگی ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں سماعت کرنے والے افراد کے پاس نہ تو قانون کی کوئی ڈگری ہے اور نہ ہی انہوں نے عدلیہ کی کوئی تربیت حاصل کی ہے ۔ فوجی عدالتوں کا قیام 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات کے تناظر میں عمل میں لایا گیا تھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی اندوہناک واقعے کے ذمہ داروں کو شفاف طریقے سے اب تک منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا ہے ۔ آرمی پبلک اسکول کے واقعے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین آج تک انصاف کے لیے در بہ در ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔ وہ مظاہرے کرنے پر مجبور ہیں جس پر انہیں لاٹھیاں بھی کھانا پڑ ی ہیں ۔ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی کو ملک کے عدالتی نظام پر اعتراض ہے تو اسے درست کرنے کی طرف سنجیدہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ معاملات عدالت سے زیادہ پراسیکیوشن میں خراب ہوتے ہیں ۔ تو بہتر بات یہ ہے کہ پراسیکیوشن کے ادارے کو درست کیا جائے ۔ ہمارے سامنے دو رول ماڈل کیس ہیں ۔ ایک شاہ رخ جتوئی کا اور دوسرا ریمنڈ ڈیوس کا ۔ شاہ رخ جتوئی سویلین اشرافیہ کا نمائندہ ہے اس لیے سارا نظام جس میں پراسیکیوشن بھی شامل ہے ، شاہ رخ جتوئی پر آنچ نہیں آنے دے رہا ۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں چونکہ اوپر سے حکم تھا اس لیے ریمنڈ ڈیوس کے قاتل ثابت ہونے کے باوجود فوجی حکام بھی عدالت میں ریسکیو کرنے کے لیے موجود تھے ۔ اسی طرح مشہور زمانہ سوئی ریپ کیس میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر کیپٹن حماد اور اس کے پانچ ساتھیوں کو چھوڑ دیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ایسی کورٹ میں جس میں ہونے والی کارروائی کسی کے علم میں نہ ہو، سماعت کرنے والی شخصیت قانون سے نابلد ہو اور اپنے افسران کا حکم ماننے کی پابند ہو، ملزم کو اس کے کیس کی آزادانہ پیروی کی اجازت نہ ہو، کس قدر اور کس طرح کا انصاف ہوسکتا ہے ۔ اب جبکہ فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ دوبارہ سے درپیش ہے ، افسوس کی بات تو یہ کہ ان عدالتوں کے فوائد اور نقصانات پر گفتگو کے بجائے سیاسی پارٹیوں میں فوائد حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ یہی پیپلزپارٹی ان فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت اس کی حامی تھی ۔ ان فوجی عدالتوں کے قیام کی پہلی توسیع میں بھی اس کی مرضی تھی مگر اس وقت جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت بدعنوانیوں کے الزامات کے گرداب میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے تو وہ اس مسئلے پر بلیک میلنگ کی سیاست اختیار کیے ہوئے ہے ۔ سیاستدانوں کے اسی طرح کے شخصی مفاد پرست رویے نے ملک کو اس نہج پر لاکھڑا کیا ہوا ہے کہ ملک میں تو کہیں پر قانون کی بالادستی ہے اور نہ ہی امن و امان کی بہتر صورتحال ۔ پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کا ماضی یہ بتاتا ہے کہ جیسے ہی ان کے معاملات حل ہوں گے وہ اپنے موقف پر یو ٹرن لے چکے ہوں گے ۔ تمام سیاستدانوں سے ہماری درخواست ہے کہ کچھ معاملات ملک و قوم کو بھی مدنظر رکھ کر کیے جائیں ۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کی مخالفت کا تعلق ہے تو ممکن ہے وہ بھی یوٹرن لے لے کیونکہ سامنے فوج ہے۔ روایات تو یہی ہیں کہ فوج کی فرمائش پوری ہو جاتی ہے۔ فوج کے ترجمان نے واضح بھی کیا ہے کہ فوجی عدالتیں ہمارا مطالبہ نہیں، یہ ملکی ضرورت ہیں۔ جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ سول عدالتوں کا فوجداری نظام دہشت گردی کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے موزوں نہیں تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ فوجی عدالتیں قائم ہونے سے دہشت گردی بہت کم ہو گئی ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے بھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا فوجی عدالتوں میں زیادہ ماہر قانون بیٹھے ہوئے ہیں؟ بہر حال فیصلہ پارلیمان میں ہو گا۔