سی ٹی ڈی کی دہشت گردی اور سرکار کی بے حسی

269

ملک میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک ادارہ سی ٹی ڈی بنایا گیا تھا جو بناتھا دہشت گردں کی سرکوبی کے لیے تھا مگر اب تک اس کی جو کارکردگی رہی ہے وہ انسداد دہشت گردی کے بجائے سرکاری دہشت گردی ہے ۔ سی ٹی ڈی کی تازہ دہشت گردی ساہیوال کے قریب پیش آنے والا واقعہ ہے جس میں نہتے افراد پر براہ راست گولیوں کی بارش کردی گئی ۔ واقعے کی سنگینی صرف اتنی نہیں ہے کہ سی ٹی ڈی کے مسلح اہلکاروں نے ایک خاندان کو دن دہاڑے قتل کر ڈالا بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگینی یہ ہے کہ اس خوفناک واقعے پر سی ٹی ڈی کے محکمے، پولیس کے اعلیٰ افسران ، وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت پوری پنجاب حکومت اور مرکزی حکومت کے ترجمان سمیت کسی کو کوئی شرمندگی نہیں ہے ۔ اس سانحے کے بعد سی ٹی ڈی نے جو پریس ریلیز جاری کی ہے وہ انتہائی اعلیٰ درجے کی ڈھٹائی قرار دی جاسکتی ہے ۔ اس پریس ریلیز میں واقعے کو دو طرفہ فائرنگ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مارے جانے والے افراد جس میں ایک خاتون بھی شامل ہیں ،کو انتہائی خطرناک دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ۔ مارے جانے والے ان افراد کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر گیلانی کے اغوا میں ملوث اور اغوا کاروں کا سہولت کار بھی قرار دیا گیا ہے ۔ مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ کار سے اغوا شدہ بچے بھی بازیاب کروائے گئے ۔ اسی سی ٹی ڈی نے کار سے خوفناک اسلحہ اور خود کش جیکٹ کی برآمد گی بھی ظاہر کی۔ سی ٹی ڈی کی اس بریفنگ پر پوری پنجاب حکومت اور مرکزی حکومت نے بھی قوالی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرنے والے دہشت گرد تھے ۔سوشل میڈیا پر اس واقعے کی تفصیل بھی اور مختلف زاویے سے بنائی گئی تصاویر اور وڈیو موجود ہیں ۔ اس سب سے پتا چلتا ہے کہ سی ٹی ڈی نے کار میں موجود افراد کو روکنے کے بجائے براہ راست فائرنگ کرکے انہیں ہلاک کیا ۔ کار میں نہ تو کوئی اسلحہ موجود تھا اور نہ ہی جوابی فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش آیا ۔ اپنی نوعیت کا یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے ۔ اس جیسے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں واقعات شواہد کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ خروٹ آباد کا واقعہ ہو یا نقیب اللہ کو مارے جانے کا ،سرکاری وردی میں ملبوس ان سفاک قاتلوں کو بچانے کے لیے پوری انتظامی مشینری متحرک ہوجاتی ہے اور راؤ انوار جیسے کردار ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ آزاد گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کرداروں کی سرکاری سرپرستی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں پیشی کے وقت راؤ انوار کی گاڑی کو اس مقام تک لانے کی اجازت دی گئی ، جس تک چیف جسٹس کی گاڑی بھی نہیں آتی ۔ پنجاب کی سی ٹی ڈی کا اس سانحے پر ردعمل بالکل سندھ کی سی ٹی ڈی کے اس عمل کا ری پلے ہے جو اس نے کراچی کے ممتاز صحافی نصراللہ چودھری کو اغوا کرنے کے بعد کیا تھا ۔ نصراللہ چودھری کے اغوا پر جب پورے پاکستان کی صحافی برادری سراپا احتجاج تھی تو سی ٹی ڈی نے اپنے پریس ریلیز میں بالکل اسی طرح نصراللہ چودھری کو دہشت گردوں کا انتہائی قریبی ساتھی اور سہولت کار قرار دیا تھا ۔اور فواد چودھری نے بالکل اتنے ہی زہریلے انداز میں صحافیوں پر برستے ہوئے کہا تھا کہ ایک دہشت گرد نصراللہ چودھری صحافیوں کی صف میں چھپا بیٹھا تھا ۔ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے معصوم لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر مار ڈالا ۔ بات اس سے بھی زیادہ سنگین یوں ہے کہ عوام کے نمائندے عوام کی نمائندگی کرنے کے بجائے سرکاری وردی میں ملبوس ان دہشت گردوں کے ترجمان اور پشت پناہ بنے ہوئے ہیں ۔ساہیوال جیسا ایک آدھ واقعہ منظر عام پر آجاتا ہے ورنہ تو اس ادارے کی سو فیصد کارکردگی ہی یہ ہے کہ چاہے جسے اٹھالواور چاہے جب تک حراست میں رکھو۔ جس سے چاہے جتنا تاوان وصول کرو اور جی چاہے تو کسی بھی پولیس مقابلے میں ماردو اور پھر فخر سے سینہ چوڑا کرکے کہو کہ ملک کو دہشت گردی سے بچادیا ۔ اس پر انہیں انعام سے بھی نوازا جاتا ہے اور ترقیوں سے بھی ۔ ہر واقعے میں یہ اہلکار یہی کرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ سی ٹی ڈی کی کارکردگی آخر ہے کیا ؟ چند دن قبل ہی جب سندھ کی سی ٹی ڈی نے کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کی تحقیقات میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اے کلاس کرنے کی سفارش کی تھی ، تو جسار ت نے بجا طور پر سوال کیا تھا کہ آخر سی ٹی ڈی کو ہی اے کلاس کیوں نہ کردیا جائے ۔ کہیں پر تو حد آجانی چاہیے کہ بس ، بہت ہوگیا ۔ یہ حد خروٹ آباد پر بھی نہیں آئی ، یہ حد نقیب اللہ پر بھی نہیں آئی اور یہ حد نصرا للہ چودھری پر بھی نہیں آئی ۔اب تو اس معاملے پر سنجیدہ ہوجانا چاہیے ۔ جتنے بھی لوگ گرفتار ہیں اور پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں ، ان کا فرانزک آڈٹ کیا جائے کہ کتنے اصلی مقابلے تھے اور کتنے جعلی ۔ کتنے بے گناہ تھے اور کتنے مجرم ۔ سانحہ ساہیوال دہشت گردی سے بھی بڑی کارروائی ہے ۔ سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے عوام میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے ۔اس کی مثال مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل کے سوا شائد کہیں اور نہ مل سکے ۔ انصاف کی بالادستی کے لیے جعلی پولیس مقابلوں کے ذمہ داروں کو قتل عمد کے جرم میں سزا دی جائے ۔ ان سرکاری قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف وہی رویہ رکھا جائے جودہشت گردوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے ۔ کوئی اور مہذب ملک ہوتا تو پوری صوبائی حکومت سانحہ ساہیوال پر مستعفی ہو کر قوم سے معافی مانگ کر ان سفاک قاتلوں کو سر عام پھانسی دے رہی ہوتی اور ان کے سرپرست افسران کو کان سے پکڑ کر نوکری سے نکالا جاچکا ہوتا ۔ بہتر ہوگا کہ پنجاب اور مرکزی حکومت پولیس کی زبان بولنے کے بجائے حق بات کرے اور عوامی نمائندہ بنیں۔ بے گناہ کا خون رائیگاں نہیں جاتا ، اگر یہ بات عوامی نمائندوں کی سمجھ میں نہیں آئی تو پھرمزید کشت و خون کے لیے تیار رہا جائے کہ یہی تاریخ کا سبق ہے ۔ ساہیوال کا واقعہ پاکستان کے مقتدر اداروں، فوج، حساس اداروں، عدلیہ اور نئی حکومت کے دعووں کی سرا سر نفی کرتا ہے۔ ہماری فوج کے ترجمان کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان اور فوجی عدالتوں کی وجہ سے دہشت گردی پر قابو پانے میں بڑی مدد ملی حساس ادارے تو سامنے آئے ہی نہیں تو بولیں گے کیا ان کی جانب سے مختلف لوگ بولتے ہیں۔ نئے وزیر مملکت برائے داخلہ امن کے گن گارہے ہیں اور سب سے بڑھ کر سابق چیف جسٹس کے بیانات اور ریمارکس سے جتنے دہشت گرد مرے اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اس کے بعد تو پاکستان میں کسی کاؤنٹر ٹیررزم نامی ادارے کی ضرورت بھی نہیں ہونا چاہیے تھی۔ لیکن اب تو ہر ہفتے، پندرہ روز میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پہلے جھوٹے مقدمے بنانے اور جھوٹی گرفتاریاں کرنے والا ایک ادارہ پولیس کاتھا۔ پھر سی آئی ڈی کو طاقت ملی، ایف آئی اے کو ملی، فوج کا باقاعدہ کردار سامنے آیا۔ دہشت گردی کے عالمی ڈرامے کا فائدہ پاکستان میں بھی اٹھایا گیا اور یہاں بھی آئینی شخصی آزادیاں نیشنل ایکشن پلان کے نام پر سلب کرلی گئیں۔ یہ کام امریکا سے شروع ہوا تھا۔ نیشنل سیکورٹی کے نام پر آج بھی انداز وہی ہے جو عراق کے خلاف امریکا کے جھوٹے دعووں کا تھا پاکستان بھر میں قومی ادارے جھوٹے دعوے کرکے اپنے ہی عوام کو قتل کررہے ہیں۔ آج اگر حکمران یا اپوزیشن ساہیوال کے سانحے پر اعتراض اور احتجاج کررہے ہیں تو وہ اس وقت کو یاد کریں جب سب نے ملکر نیشنل ایکشن پلان کے تحت عوام کو اور خود حکومت کو اپنے آئینی حقوق سے محروم کیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے نتائج تو سامنے ہیں اب پارلیمنٹ میں اپوزیشن بھی مضبوط ہے حقائق کا سامنا کرے اور اپنے اختیارات آئین اور عوام کے حقوق کا تحفظ کرے۔ یہ واقعہ اس جانب بہت واضح اشارہ ہے کہ پارلیمنٹ سے جو اختیارات مانگے جارہے ہیں شرافت سے دے دیے جائیں، ورنہ ایسے واقعات مزید ہوسکتے ہیں۔ اب یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ فیصلہ کرے کہ اس ملک کو مکمل تباہی کی طرف لے جانا ہے یا آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنی ہے۔ اپوزیشن کو بھی اس وقت فوجی عدالتیں بری لگ رہی ہیں جب اس کے خلاف کارروائی ہورہی ہے ورنہ مسلم لیگ ن کو پورے دور اقتدار میں یہ بری نہیں لگیں۔ اگر یہ عدالتیں اور نیشنل ایکشن پلان اب غلط ہیں تو پہلے صحیح کیونکر تھے۔ اور پہلے صحیح تھے تو اب غلط کیوں ہوگئے۔ خدارا اس ملک اور اس کے عوام پر رحم کریں۔