چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ’’کچھ ڈیم‘‘ بنانے کے ارادے!

223

 

 

ملک کے نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جمعہ کو حلف اٹھا کر نہ صرف نئے منصف اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا بلکہ ایک مقدمے کا فیصلہ بھی سنا دیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جمعرات کو سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے الوداعی ریفرینس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ایک بار میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ان کی زندگی میں دو ہی مقصد رہ گئے ہیں ایک ڈیم بنانا اور دوسرا ملک کو قرضوں سے نجات دلانا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ: ’’میں بھی کچھ ڈیم بنانا چاہتا ہوں، ایک ڈیم عدالتی مقدمات میں غیر ضروری تاخیر کے خلاف، ایک غیرسنجیدہ قانونی چارہ جوئی اور جعلی عینی شاہدین اور جعلی گواہیوں کے خلاف اور یہ بھی کوشش کروں گا کہ قرض اتر سکے، زیرالتوا مقدمات کا قرض جنہیں جلد از جلد نمٹایا جائے‘‘۔ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی گفتگو سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ملک میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے ہر ادارے کے امور کے بارے میں ازخود نوٹس لینے کا عدلیہ کا دور اب ختم ہوگیا اور اب اپنے دائرے کے امور ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب اسکول فیسوں میں اضافے، موبائل کارڈز پر ٹیکس، اسپتالوں میں زائد چارجز کی وصولی، جیلوں و اسپتالوں میں چھاپوں اور تجاوزات کی موجودگی کا کوئی نوٹس نہیں لیا جائے گا۔
قوم کو تو چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کا ’’سوموٹو ایکشنز‘‘ کا دور بھی یاد ہے۔ جب ہر بڑے مسئلے پر ازخود نوٹس لیا جاتا تھا۔ اس دبنگ دور میں کراچی کے سانحہ بارہ مئی کے واقعہ پر بھی ازخود نوٹس لیا گیا تھا لیکن پہلی سماعت میں عدالت کے باہر جمع ہونے والے ہجوم کو دیکھ یا پھر کسی اور وجہ سے اس مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوگئی تھی۔ لیکن سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے جو بھی خدمات عدالت کی خود مختاری اور انصاف کے نظام کی بحالی کے لیے کی وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سابق چیف کے اقدامات کے گواہ کراچی سمیت ملک کے تمام شہر اور شہری ہیں۔
اسی طرح جمعرات کو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا پورا دور ہی عدلیہ کی نئی تاریخیں لکھ کر ختم ہوگیا۔ افتخار چودھری کی طرح لوگ میاں ثاقب نثار کے اقدامات کو بھی کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ اس دور میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنی ملازمت کے آخری ایام میں اپنی زندگی کے دو مقاصد پر بھی کام کیا اور ڈیم بنانے کی شروعات بھی کی اور قرض اتارنے کے لیے بھی اقدامات کا آغاز کیا۔ یہ اور بات ہے کہ میاں ثاقب نثار کی زندگی کے ان دونوں مقاصد کی تکمیل نہ ہوسکی۔ خوشی اس بات کی ہے کہ جو ارادے انہوں نے کیے اس پر چند ماہ نہیں چند دنوں میں عمل کرکے بھی دکھایا۔ اب لوگ میاں ثاقب نثار کو ہمیشہ ’’ڈیم بنانے والے جسٹس‘‘ کی حیثیت سے یاد کرتے رہیں گے۔ جبکہ نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف اور شرجیل میمن تو شاید کبھی بھلا بھی نہ پائیں۔ شرجیل میمن کو اسپتال اور شراب کے ذکر سے ہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی یاد آئے گی۔
ہم اس دور میں زندگی گزار رہے ہیں جب عدالتیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بجائے افتخار محمد چودھری، میاں ثاقب نثار اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بن گئیں تھیں یا ہیں۔ قوم کو تاریخوں ہے تاریخیں دینے والی عدالتوں کے ساتھ ان معزز جسٹس صاحبان کی عدالتیں بھی نہ صرف یاد رہیں گی بلکہ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بھی بکھیرا کریں گی خصوصاً اس وقت جب لوگ دریافت کریں گے کہ ’’پھر کیا ہوا، کیا نتائج نکلے‘‘ کیوں کہ چیف جسٹس نے اپنے جن ارادوں کا اظہار کیا ہے وہ ان کے اپنے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ گیارہ ماہ کی مدت میں اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے کیا کچھ کرسکیں گے؟۔