افغانستان اناکے حصارگرانے کا وقت؟

220

 

 

افغانستان میں جاری سترہ سالہ جنگ کے دو اہم اور بنیادی فریق امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست اعلانیہ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ فریقین ابھی اپنا اپنا ایجنڈا طے کرنے کے ہی مرحلے میں ہیں۔ ابھی تک مذاکرات کے ابتدائی اور رسمی ادوار ہی منعقد ہوئے ہیں۔ مذاکرات کا ایک اہم دور دوحہ کے بجائے اسلام آباد میں ہونا طے پایا ہے۔ مذاکرات کے اس مرحلے میں طالبان کی زیادہ اہم قیادت کی شرکت کی توقع ہے۔ تاریخ میں پہلی بار دونوں فریق ایک میز کے گرد بیٹھنے پر آمادہ ہوئے تھے۔ طالبان کا بنیادی مطالبہ ہی یہ تھا کہ وہ افغان مسئلے کے اصل فریق امریکا سے کسی بھی وقت کسی بھی جگہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر امریکا کو افغان حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ بیٹھنا قبول نہیں تھا۔ امریکا ہمیشہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات پر اصرار کرکے خود کو اس سارے کھیل سے دور رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ جس طرح امریکا کے لیے طالبان سے مذاکرات ایک کڑوا گھونٹ تھا اسی طرح طالبان کے لیے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی ایک مشکل فیصلہ ہے۔ امریکا نے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرکے درحقیقت اپنی انا کا علم گرادیا ہے اور اب گیند طالبان کی کورٹ میں ہے کہ وہ اپنی انا کے مینار کو کب ڈھا کر افغانوں کے ایک گرینڈ جرگے پر آماد ہ ہوتے ہیں۔ گوکہ امریکا اور طالبان کو آمنے سامنے بٹھانے کا یہ کام پاکستان کی تائید اور امداد سے ممکن ہوا مگر امریکا کو اس مقام تک پہنچانے میں حالات کا عمل دخل ہے۔
افغانستان کی زمین ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکا اور اتحادی افواج کے پیروں کے نیچے سے کھسکتی چلی گئی۔ اس مذاکراتی عمل میں امریکا اور طالبان کے غیر لچکدار رویے کی رویے کی وجہ سے ڈیڈلاک کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ امریکا کا اصرار یہ ہے کہ طالبان کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں تاکہ برسوں پہلے امریکا نے طالبان حکومت ختم کرکے اس جگہ حامدکرزئی کی قیادت میں جو نظام کھڑا کیا تھا اسے طالبان کے ذریعے قبولیت دلائی جائے۔ ابھی تک طالبان اس نظام کو جوازیت دینے سے انکاری ہیں۔ ان کے خیال میں یہ نظام نہ صرف ان کی حکومت کو ختم کرکے کھڑا کیا گیا ہے بلکہ امریکا کے قبضے کا تسلسل ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ اس کی فوجوں کے انخلا کے بعد افغان حکومت گرنے کے بجائے کھڑی رہے۔ خود پاکستان کے لیے بھی یہ ایک حقیقی چیلنج بن گیا ہے کہ اگر کابل حکومت اچانک سے گرجاتی ہے تو وہاں پیدا ہونے والے طاقت کے خلا کو کون پُر کرے گا ؟۔ ماضی میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے گر جانے پر مجاہدین نے وقتی واہ واہ تو حاصل کی مگر طاقت کا خلا مجاہدین بھی پُر نہ کر سکے یا انہیں پُر کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ اب بھی یہ سوال اہم ہے کہ کیا طالبان تنہا اس خلا کو پر کر سکتے ہیں ایسے میں جب کہ طالبان صرف پشتون علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور افغانستان کی ٹوپو گرافی میں اس کے علاوہ زمینی حقیقتیں بھی موجود ہیں۔ ماضی میں طوفان کی طرح آگے بڑھنے والے طالبان کی فتح کو بریک لگانے والی یہی زمینی حقیقتیں تھیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے تو لامحالہ اس کا پہلا متاثر پاکستان ہوگا کیوں کہ ماضی کی طرح جنگ سے تباہ حال عوام کی قریبی منزل پاکستان ہوگا۔ پاکستان پہلے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ عشروں سے برداشت کررہا ہے۔ اس کی اپنی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور اب پاکستان مزید پناہ گزینوں کا بوجھ اُٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پاکستان ایک بار پھر افغانستان میں طاقت کا خلا پیدا ہونے کے خوف سے طالبان کو امریکا کے ساتھ ساتھ کابل انتظامیہ کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ کر رہا ہے۔ یہ شاید وہی مقام ہے جہاں پاکستان نوئے کی دہائی کے اوائل میں کھڑا تھا جب پاکستان افغان مجاہدین کو امریکا کی شرائط ماننے پر آمادہ کر رہا ہے۔ اس کوشش میں پاکستان نے کئی افغان مجاہد دھڑوں کو خود سے دور کر لیا تھا۔ اب طالبان کے حوالے سے پاکستان نے امریکا اور بھارت جیسے ملکوں کے طعنے برداشت کیے ہیں۔ اس مرحلے پر پاکستان طالبان پر ایک حد تک ہی دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ حد سے بڑھ کر دباؤ ڈالنے کا نتیجہ منفی بھی ہو سکتا ہے۔
طالبان امریکا کے ساتھ مذاکراتی عمل معطل کرنے کی دھمکی بھی دبے لفظوں میں دے چکے ہیں۔ وہ کوئی منظم حکومت نہیں بلکہ ایک ملیشیا ہیں اور ان سے اس عمل سے الگ ہونے کا فیصلہ بھی کچھ بعید نہیں۔ جس سے افغانستان میں قیام امن کی موہوم امید دم توڑ سکتی ہے۔ طالبان اب صرف پاکستان کے دوست نہیں رہے بلکہ انہیں روس اور ایران جیسے مہربانوں کا ساتھ بھی حاصل ہو چکا ہے جو افغانستان سے مکمل انخلا کے طالبان کے موقف کے سو فی صد حامی وہمنوا ہیں۔ خود طالبان کے اندر یہ سوچ بھی پیدا ہو چکی ہے کہ پاکستان اپنی اقتصادی مشکلات کے حل کے لیے طالبان کو امریکا کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ کئی ممالک اس حوالے سے جلتی پر تیل ڈالنے میں بھی مصروف ہیں۔ پاکستان کو اپنے کارڈ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ انہیں یہ حقیقت جان لینا چاہیے کہ ان کا
گردو پیش بدل رہا ہے۔ امریکا کسی بھی وقت افغانستان کو جنگ زدہ حالت میں چھوڑ کر جا سکتا ہے۔ ٹرمپ اب بش کا بوجھ اُٹھانے پر تیار نہیں۔ یہ بوجھ تو اوباما بھی اٹھانے سے انکاری تھے مگر حالات کا قیدی ہونے کی وجہ سے بڑا فیصلہ نہ کرپائے تھے۔ پاکستان چار عشرے تک جنگ زدہ افغانستان کو دیکھ چکا ہے۔ زخموں سے چُور افغانستان نے ان چار عشروں میں پاکستان کو بھی خوش حال اور مستحکم نہیں ہونے دیا۔ اس عرصے میں پاکستان کو سوشل اسٹرکچر بری طرح بکھر کر رہ گیا۔ اس تلخ اور طویل تجربے کے بعد پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی کو رومنٹسائز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یوں طالبان کو بھی بدلتی ہوئی ہواؤں اور حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی سیاست اور وجود کے اظہار کے لیے بہتر راستہ تلاش کرنا چاہیے اپنے برسوں کے آزمودہ دوستوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے بجائے پورے خطے کی مشکلات کو کم کرنے کی پالیسی اپنانا چاہیے۔ دنیا نے ایک جنگ زدہ افغانستان کا خمیازہ چالیس سال بھگت لیا ہے اب اس ملک کو امن کی راہ پر ڈال کر ایک اور تجربہ کیا جا رہا ہے اور طالبان اس تجربے کی راہ میں تادیر رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ آج وہ اپنے پورے قد، وزن اور دوستوں کی حمایت کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں اور کہیں ایسا نہ ہوکہ کل وہ اس پوزیشن سے محروم ہو کر مذاکرات کرنے پر مجبور ہوں۔ انہیں اسی کی دہائی کے اواخر میں جب سوویت افواج انخلا کرنے کے قریب تھیں ایک محب وطن اور صاحب الرائے سیاسی شخصیت سردار عبدالقیوم خان کا دہرایا جانے والا یہ جملہ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’مجھے خدشہ ہے جہاد کامیاب اور مجاہدین ناکام نہ ہوجائیں‘‘۔ جہاد کامیاب ہوگیا مگر اس دور کے مجاہدین خانہ جنگی کے کسی فارمولے پر متفق نہ ہو کر ناکامی کی تصویر بن کر رہ گئے۔