ایک صاحب علم کی ایمان افروز تحریر

340

 

 

گزشتہ سال امریکا کے سفر کے دوران میں نے ڈی این اے کو حتمی اور قطعی حجت قرار دینے والوں کے لیے امریکی اور جرمنی عدالتوں کے فیصلے پیش کیے کہ اس میں غلطی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ یہاں یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ ڈی این اے میں کسی شک وشبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس کی قطعیت پر یقین لازمی ہے۔ میں نے انہی صفحات پر ’’علم نبوت کی کرنیں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا اور اس میں نبی کریم ؐ کی اُن احادیثِ مبارکہ کا حوالہ دیا تھا، جن کی آج سائنس تصدیق کر رہی ہے۔ اُس کالم میں، میں نے کتے کے لعاب کی ناپاکی اور شکار کے لیے رکھنے کے جواز پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا: بعض ماہرین کہتے ہیں: ’’شکار کے پیچھے تیزی سے بھاگتے ہوئے کتے کا لعاب خشک ہوجاتا ہے‘‘۔ بعد میں ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا: ’’اہلِ مغرب بکثرت کتے پالتے ہیں، وہ کتے انہیں چاٹتے بھی ہیں، اینمل پلینٹ میں بھی اس کے مظاہر دیکھے جاسکتے ہیں، وہ کتے کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، میڈیکیٹڈ خوراک دیتے ہیں، خصوصی ویکسینیشن کرتے ہیں، تو اس کی بابت کیا کہیں گے‘‘۔ ظاہر ہے: ایک مسلمان کا شعار یہی ہونا چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ؐ کے احکام کو بلا چون وچرا تسلیم کرتے ہیں، اگر اُن کی حکمت ہماری سمجھ میں آجائے تو یہ ہماری عقل کی سعادت ہے اور نہ آئے تو یہ ہماری عقل کی نارسائی ہے، وحی ربانی اور صاحبِ وحی سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کے فرامین کل بھی حق تھے، آج بھی حق ہیں اور قیامت تک حق رہیں گے۔ تاہم میں نے امریکا میں ایک مایۂ ناز اسپیشلسٹ ڈاکٹر صاحب سے رابطہ قائم کیا، جو اپنے شعبے میں انتہائی نامور ہیں اور ان کا قرآن وحدیث کا بھی وسیع مطالعہ ہے، چنانچہ میں نے اُن سے عقلی اور سائنسی وجوہ کی بابت رہنمائی طلب کی، ان کا یہ ایمان افروز جواب پڑھیے:
’’میرا بنیادی عقیدہ اور طرزِ عمل دوچیزوں پر منحصر ہے، ایک یہ کہ جو میں سوچ رہا ہوں یا کہہ رہا ہوں یا کر رہا ہوں وہ میرے ایمان سے کیا تعلق رکھتا ہے اور اس پر کیا اثر کرسکتا ہے۔ دوسری یہ کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ؐ نے فرمادیا: وہی حتمی، قطعی اور کافی وشافی دلیل ہے، اس پر کوئی مزید دلیل طلب کرنا ذوقِ ایمانی کے منافی ہے، خواہ وہ دلیل عقلی مسلّمات، تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہو، میں اپنے حلقۂ احباب میں بھی انہی باتوں کی تلقین کرتا رہتا ہوں۔ سائنس کو دین کی اساس یا ثبوت بنانا خطرے سے خالی نہیں ہے، کیوں کہ سائنس اور انسانی تجربات حالات اور وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، مگرقرآن نے جس دینِ کامل کا اعلان کیا ہے، اس میں قیامت تک تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا اوراس پر یقین مسلمان ہونے کی کسوٹی ہے۔
میں اس سلسلے میں اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتا ہوں، آج سے تقریباً چالیس سال قبل امریکا میں میری ایک مصری مسلمان سے واقفیت ہوگئی، اس نے مجھے کھانے کی دعوت پر اپنے گھر بلایا، میں جب وہاں پہنچا تو میرے سوا کوئی اور مہمان نہیں تھا۔ جب کھانا میز پر لگ گیا تو میں نے اپنی عادت کے مطابق اس سے دریافت کیا کہ یہ گوشت کیسا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکا میں بالعموم اہلِ عرب کھانے پینے کے معاملے میں احتیاط نہیں برتتے تھے، غالباً یہ طویل یورپین غلامی کا نتیجہ ہے۔ اس نے بڑے آرام سے جواب دیا کہ یہ Ham (سور کا گوشت) ہے۔ میرے دل ودماغ میں اشتعال پیدا ہوا، مگر میں نے بڑے تحمل سے کہا: میں اسے نہیں کھا سکتا، کیوں کہ یہ مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس مصری نے مجھ سے کہا: ’’میں بھی تو مسلمان ہی ہوں اور عربی بھی خوب جانتا ہوں۔ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں پر خنزیر حرام کردیا گیا تھا، کیوں کہ اس میں بہت سی بیماریاں تھیں، مگر اب تو سائنسی ترقی کے سبب پالتو سوروں کو اُن بیماریوں سے پاک کردیا گیا ہے اور امریکی حکومت سور کے گوشت کی باقاعدہ تحقیق کر کے سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے، سور کا وہی گوشت بیچا جاسکتا ہے جو مضرِصحت نہ ہو۔ اس عرب بھائی نے کہا: میں کافی عرصے سے سورکھارہا ہوں اور مجھے کوئی بیماری نہیں لگی‘‘۔
الغرض میں کھانا کھائے بغیر اس مصری کے گھر سے واپس چلا آیا، اس کے بعد میری اس سے کبھی ملاقات نہ ہوئی، مجھے تو اب اس کا نام بھی یاد نہیں، مگر یہ سانحہ میرے ذہن میں آج بھی ایسے ہی تازہ ہے، جیسے ابھی واقع ہوا ہو۔ پس حلال کیا ہے، حرام کیا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ؐ نے جو کچھ فرمادیا، وہ حرفِ آخر ہے، ہمارے لیے وہ حتمی کسوٹی ہے، اس کی بابت بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، (نبی ؐ نے فرمایا: اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے، جس چیز کے دینے کو تم پر واجب کیا ہے، اس سے منع کرنے اور جس چیز کو لینے سے تم کو منع کیا ہے، اس کے طلب کرنے، تمہارے فضول بحث کرنے، بکثرت سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو ناپسند فرمایا ہے، (بخاری)، راقم الحروف)‘‘۔
میں عبادات کے معاملے میں سائنسی یا کسی اور قسم کی اختراع اور دلیل کو قطعاً غلط جانتا ہوں، وہ عبادت ہی نہیں جو رسول اللہ ؐ کے تعلیم فرمائے ہوئے طریقے سے ایک فی صد بھی ہٹ کر ہو، ایسے ہی میں قطعی حرام اور حلال میں اسی کا قائل ہوں۔ میں دنیاوی معاملات میں سائنس، انسانی تجربات اور حالات سے مکمل فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، بلکہ ان کے استعمال کی تلقین کرتا ہوں۔ عبادات اور قطعی حلال وحرام کے معاملے میں تبدیلی کو اپنی سوچ اور خواہش کی پیروی سمجھتا ہوں اور اس پر اس آیت کا اطلاق کرتا ہوں: ’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو خدا بنا رکھا ہے، (الجاثیہ: 23)‘‘۔
ایک مسلمان کا عبادات اور قطعی حلال اور حرام کے بارے میں سائنسی ثبوت مانگنا بھی اسی کے تحت آتا ہے، کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول مکرم ؐ کے صریح احکام کے بجائے اپنی عقل اور خواہش کی تسلی چاہتا ہے۔ اُسے اس کی پروا نہیں کہ آج کی سائنس اگرکل تبدیل ہوگئی، تو کیا جس سائنسی دلیل کو آج جواز بنایا ہے، کل اس کو ترک کر کے نئی سائنسی دلیل تلاش کرے گا یا اسلام کے حکم کو اس کے مطابق تبدیل کردے گا۔ میں ایک ماہر امراضِ چشم ہوں اور ہمارے شعبے میں سائنسی تحقیق اتنی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے کہ جو میں آج سے چند سال قبل کرتا تھا، آج نہ وہ اوزار، نہ وہ مشینیں اور نہ وہ دوائیاں استعمال ہورہی ہیں اور چند سال میں یقیناًیہ بھی قصۂ پارینہ ہوجائیں گی، سائنس کے ہر میدان کا یہی حال ہے، سو سائنس ایک ایسے دین کی کسوٹی یا دلیل نہیں بن سکتی جس کی خصوصیت اِکمال و اِتمام و دوام یعنی Perfection، Completion اور Eternity ہے۔
کسی بھی چیز پرماہرانہ رائے دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص اُس چیز کی انواع و صفات کا عالم ہو۔ کتے کی انواع تو سب کو معلوم ہیں، مگر آپ کے سوال کے جواب کو مفید تر بنانے کے لیے بہتر ہوگا کہ کتے کی صفات کا اسلامی نقطہ نگاہ سے ذکر کردوں۔ اس لحاظ سے احادیثِ مبارکہ اور اسلامی روایات کی روشنی میں کتے کے چند حوالے میرے ذہن میں آتے ہیں:
(۱) ایک کتا پیاس کی شدت سے ہلکان ہورہا تھا، ایک گناہگار شخص اور ایک فاحشہ عورت نے اس کو سخت پیاس کی حالت میں پانی پلادیا، تو اللہ غفور ورحیم نے اس کو بخش دیا، حدیثِ مبارک میں ہے:
’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: (پچھلی امتوں میں) ایک شخص راستے پر پیدل جارہا تھا، اس کو شدید پیاس لگی، اس نے ایک کنواں دیکھا، وہ اس میں اترا اور پانی پی کر باہر آیا۔ پھر اس نے ایک کتا دیکھا، پیاس کی شدت سے اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور وہ (اپنے جگر کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے) کیچڑ کو چوس رہا تھا۔ اس شخص نے (دل میں) سوچا: اس کتے کو بھی اتنی ہی شدید پیاس لگی ہے جتنی (تھوڑی دیر پہلے) مجھے لگی ہوئی تھی، پھر وہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا، پھر اس موزے کو اپنے منہ سے پکڑا (اور کنویں سے باہر آکر) اس کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اس فعل کی قدر افزائی فرمائی اور اس کو بخش دیا، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ہمارے لیے ان جانوروں میں بھی اجر ہے، آپ ؐ نے فرمایا: ہاں! ہر تر جگر والے (یعنی ذی حیات کو راحت پہنچانے) میں اجر ہے، (بخاری)‘‘۔ نیز ایسا ہی ایک واقعہ بخاری: میں ایک فاحشہ عورت کے حوالے سے مذکور ہے کہ پیاس سے بلکتے ہوئے کتے کو پانی پلانے سے اس کی مغفرت ہوگئی۔
دوسرا کتا وہ ہے جو شکار کرنے، مویشیوں، کھیتی باڑی اور گھر بار کی حفاظت کرنے میں انسان کا مدد گار ہوتا ہے۔

تیسرا وہ کتا جس کو رسول اللہ ؐ نے شیطان کہا ہے اور مارنے کا حکم فرمایا: ’’کالے سیاہ کتے کو مارو جس کی آنکھ پر دو نقطے ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ شیطان ہے، (مسلم)‘‘۔ چوتھا اصحابِ کہف کا وہ خوش نصیب کتا جس کا سورۃ الکہف آیات: 19و22 میں مختلف انداز سے نو مرتبہ ذکر آیا ہے، اسی کی بابت شاعر نے کہا:
پسرِ نوح با بداں بنشست
خاندان نبوتش گم کرد
سگِ اصحابِ کہف روزے چند
پئے نیکاں گرفت، مردم شد
ترجمہ: ’’سیدنا نوح ؑ کے بیٹے نے بُروں کی صحبت اختیار کی، تو خاندان نبوت کی نسبت سے محروم ہوگیا، کیوں کہ قرآن نے کہا: (ترجمہ:) ’’اے نوح! وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے، اس کے کرتوت برے ہیں، (ہود: 46)‘‘، جبکہ اصحابِ کہف کے کتے نے چند روز صالحین کے قدموں میں بسر کیے تو باکمال ہوگیا (کہ قرآن میں اس کا ذکر بار بار توصیفی انداز میں آیا)، علامہ عبدالرحمن جامی نے کہا:
سَگَتْ را کاش جامیؔ نام بُودے
کہ آید بر زبانت گاہے گاہے
ترجمہ: ’’کاش آپ کے کتے کا نام جامی ہوتا تو جب کبھی آپ اپنے کتے کو بلاتے تو میرا نام جامی آپ کی زبانِ مبارک پر آجاتا (اور یہ میرے لیے سعادت ہوتی)‘‘۔ شیخ سعدی، احمد رضا قادری اور مولانا محمد قاسم نانوتوی کے کلام میں بھی رسول اللہ ؐ سے اظہارِ عقیدت ومحبت اور رشتۂ وفا کو ظاہر کرنے کے لیے کتے کا استعارہ موجود ہے۔ (جاری ہے)