جے آئی ٹی قاتلوں کو تحفظ ہی دے گی

233

ساہیوال میں سرکاری ایجنسی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں چار افراد کے سرعام قتل پر ایک جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی مجرموں کو تحفظ دینے کا عمل شروع کردیا گیا۔ ناموں کے بغیر ایف آئی آر درج کرلی گئی یعنی یہ کیس بھی نامعلوم ہو جائے گا۔ اب جب بھی مقدمہ چلے گا ایف آئی آر کی بنیاد پر اور اس میں کسی کا نام نہ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے والے قاتلوں کوبچانا چاہتے ہیں ۔ تاہم مقتول کے بھائی کی طرف سے ایک اور ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس میں نام موجود ہیں۔ سانحہ ساہیوال دراصل پاکستان کے ریاستی نظام کی دیمک زدہ لاش کا نوحہ ہے آپ جتنی جے آئی ٹی بنالیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کا کیا فائدہ ہوا۔ چار سال بعد نئی جے آئی ٹی بنانی پڑی۔ راؤ انوار کی جے آئی ٹی کا کیا ہوا۔ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی کہاں پڑی ہے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹی نے کیا گل کھلائے۔ یہ جے آئی ٹی تو صرف وقت ضائع کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ ہاں جب کسی کو سزا سنانی ہو تو اس کی جے آئی ٹی رپورٹ پر تیز رفتاری سے کام ہوتا ہے جیل بھی بھجوایا جاتا ہے لیکن بلدیہ ٹاؤن 259 افراد کی ہلاکت پرجے آئی ٹی قاتلوں کی محافظ بن گئی۔ راؤ انوار 4سو سے زیادہ قتل، جے آئی ٹی نے وقت ضائع کیا اور راؤ انوار مزے میں ہیں ۔ شہباز شریف تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔ عزیر بلوچ کہاں مزے کررہے ہیں۔ کسی جے آئی ٹی نے کچھ نہیں کیا۔ جرم پر پردہ ڈالنے اور مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے کوئی اور نہیں وفاقی صوبائی حکومت اور وزراء کھڑے ہوگئے۔ پنجاب کے وزیرقانون راجا بشارت نے تو حد کردی۔ کہنے لگے کہ آپریشن سو فیصد شواہد کے مطابق تھا۔ انہوں نے پورا جعلی بیان دہرا دیا کہ ڈرائیور کا تعلق داعش سے تھا۔ گاڑی سے خودکش جیکٹس برآمد ہوئیں۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ کارروائی میں آئی ایس آئی بھی شامل تھی۔ اس کا جواب تو آئی ایس آئی خود دے گی یا راجا بشارت سے اس کا جواب لے گی لیکن کیا راجا صاحب ان تصویروں، فلموں اور فوٹیج وغیرہ کو جھوٹا ثابت کریں گے جو درجنوں لوگوں نے موقع پر بنائیں۔ مقتول سیٹ بیلٹ باندھ کر کس طرح پولیس پر فائرنگ کررہا تھا۔ گاڑی سے کوئی اسلحہ نہیں ملا۔ ایک اور ظالمانہ بیان گورنر پنجاب چودھری سرور نے دے ڈالا وہ تو برطانیہ میں عمر گزار کر آئے ہیں کیا برطانیہ کا کوئی سرکاری عہدیدار ایسے واقعے پر بے ہودہ جملہ کہہ سکتا ہے کہ ساہیوال جیسے واقعات دنیا میں ہوتے رہتے ہیں ۔ ذرا چودھری سرور صاحب یہ بھی بتا دیں کہ ایسے واقعے پر برطانیہ میں متعلقہ وزیر کیا کرتا ہے۔ سیکورٹی والوں کا حشر کیا ہوتا ہے۔ وہاں تو ڈاکٹر غلط دوا یا انجکشن دے دے تو عمر بھر جیل میں رہتا ہے یا جرمانے ادا کرتے عمر گزر جاتی ہے۔ چودھری سرور کوبھی استعفیٰ دینا چاہیے۔ وزیر اعظم اور صدر مملکت کا پہلے دن کا ردعمل مایوس کن اور غیر ذمے دارانہ تھا۔ صدر مملکت نے فرمایا بلکہ صرف اخباری خبروں کو دہرادیا کہ بچوں کے سامنے والدین کو شہید کردیا گیا، قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس سانحے کے کتنے مضر اثرات ہوں گے۔ لیکن جناب صدر آپ کا کام بیان دینا نہیں ، صدر مملکت پوری سرکاری مشینری کو کان سے پکڑ کر نکال دیتے۔ یہی حال وزیر اعظم کا ہے وہ تو ایک رات صدمے میں رہے۔ جب صدمے سے باہر نکلے تو وزراء اور حکومت پنجاب کے غیر ذمے دارانہ بیانات پر برہم ہوئے لیکن کیا وزیر اعظم محض بیانات دیں گے۔ ساہیوال کا واقعہ تو ایسا واقعہ ہے کہ کسی جے آئی ٹی کی ضرورت نہیں پوری سی ٹی ڈی ٹیم کو اسی مقام پر آنے والے جمعے کو سزا دینا چاہیے ۔ لیکن ایسا کرنے والی جرأت مند حکومت ہی ہوسکتی ہے اور پاکستان میں اب تک ایسی جرأت مند حکومت نہیں آئی۔ اگر پڑوس کے ملک افغانستان کے طالبان کے دورحکمرانی کا ذکر کریں تو کسی جے آئی ٹی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی مظلوم کو تیز رفتاری سے انصاف ملتا تھا۔ ان کی بات کی گئی تو کہا جائے گا کہ دہشت گردوں کی طرف داری کی جارہی ہے۔ شہداء کی تصویریں جتنے لوگوں نے بنائی ہیں اور ویڈیوز بنائی ہیں ان کے مطابق کسی جے آئی ٹی کے بغیر سی ٹی ڈی ذمے دار ہے۔ حکومت پنجاب اس تضاد پر روشنی ڈالے کہ پاکستان میں اس سے قبل کتنے دہشت گردوں کے لواحقین کو دو کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ حکومت کے ریکارڈ کے مطابق جو لوگ دہشت گرد ہیں ان میں ریاض بسرا پنجاب میں قتل کیا گیا تو کیا حکومت نے دو کروڑ روپے لواحقین کو دیے تھے یا اب بلا کر دے گی۔ بیت اللہ محسود، نیک محمد وغیرہ کے ورثا بھی منتظر ہیں۔ سانحے کی ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس فرار ہو رہی ہے۔ اگر مقتولین دہشت گرد تھے تو پولیس قتل کر کے فرار کیوں ہوگئی۔ یہ واقعہ نئے چیف جسٹس کے لیے بھی امتحان ہے کہ انہوں نے ازخود نوٹس کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا ہے یا کسی ’’خاص‘‘ واقعے کے لیے یہ راستہ کھولیں گے۔ یہ پاکستانی ریاست کے کردار پر بھی سوال ہے۔ غیر ضروری تحقیقاتی عمل اور مقدمے بازی کے نتیجے میں انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا۔