اسلام آباد ہائی کورٹ میں شریعت کی غلط تشریح

466

پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ اہم عہدوں اور ذمے داریوں پر وہ لوگ فائز ہوجاتے ہیں جو دین کے احکام اور شریعت سے پوری طرح واقف نہیں۔ اس ناواقفیت کی وجہ سے وہ دین کی غلط تشریح کرتے ہیں اور اگر یہ کام عدل کے منصب پر بیٹھا شخص کرجائے تو یہ نظیر بن جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایک شخص کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ شریعت کا حکم ہے کہ دوسروں کے عیب چھپاؤ، اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ کسی کی ذاتی زندگی پر کیچڑ نہ اچھالی جائے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ آئندہ ایسی درخواست آئی تو جرمانہ ہوگا۔ شریعت کے جس اصول کا ذکر کیا گیا ہے وہ عیب جوئی کی نیت سے کسی کے بارے میں گفتگو کرنا یا مجلسوں میں عام بات کرنی ہے، کسی کو بدنام یا برا ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اگرچہ اس میں یہ عیب ہو، لیکن کوئی حکمران بن جائے تو اس کے معاملے میں یہ اصول اس طرح نافذ نہیں ہوسکتا۔ وزیر اعظم کے خلاف درخواست میں یہی تو کہا گیا تھا کہ امریکی عدالت نے حکم دے رکھا ہے کہ ٹیریان عمران کی بیٹی ہے اور وہ اسے بیٹی تسلیم کرتے ہیں نہ انکار۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے روبرو بھی اس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ عدالت نے درخواست خارج کردی لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے اس سے قطع نظر کہ کون مجرم ہے اور کس پر کیا الزام ہے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ذاتی زندگی ، ان کے بچوں کے اکاؤنٹس ان کے باپ کی جائداد، مریم نواز کی ذاتی زندگی سمیت شہباز شریف اور شریف خاندان کی جائدادوں کے حوالے سے نیب ، ایف آئی اے، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس سب میں خوب خوب تشہیر ہوئی۔ اتفاق سے جس روز عمران خان کے خلاف درخواست مسترد کی گئی اس کے ساتھ ہر جگہ یہ خبر لگی ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ اسے قبول کرتی ہے یا اسلام آباد ہائی کورٹ کا اصول لاگو کرتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جو لوگ ملک پر حکمرانی کررہے ہوں یا ایسے مناصب پر ہوں جن سے معاشرہ متاثر ہوسکتا ہے اور وہ غلط بیانی کے مرتکب ہو رہے ہوں تو پھر اس کو تو زیر بحث لایا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی عام آدمی جھوٹ بولتا ہے ،گھر میں گندگی کرتا ہے یا غلط بات پھیلاتا ہے، بچوں کو ڈانٹتا مارتا ہے ، گھر کے معاملے میں غیر ضروری سختیاں کرتا ہے، رشتے داروں سے اچھے تعلقات نہیں ہیں تو اس کی تشہیر عیب جوئی کے طورپر نہیں کی جاسکتی۔ کوئی اس کے بارے میں مشورہ مانگے اس کے اخلاق و کردار کے بارے میں کسی مسئلے پر رائے طلب کرے تو ہر مسلمان کو رائے دینی چاہیے ایمانداری کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔لیکن یہاں تضاد ہے۔ میاں نواز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے جائداد چھپائی نا اہل قرار دیے گئے، سزا سنا دی گئی۔ زرداری صاحب پر الزام ہے کہ انہوں نے بھی نیویارک کا اپارٹمنٹ، پارکنگ لاٹ اور دو بلٹ پروف گاڑیاں ظاہر نہیں کیں۔ تو عمران خان پر بھی بیٹی ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے۔ جبکہ ٹیریان کے صرف بیٹی ہونے کا مسئلہ نہیں ہے بات جب کھلے گی تو یقیناًذاتی معاملات تک جائے گی۔ اگر الزام درست ہے تو وہ منصب کے اہل نہیں اور غلط ہے تو الزام لگانے والے کو سزا دی جائے لیکن جج صاحب کی اطلاع کے لیے شریعت اور اسلامی تاریخ میں درجنوں امراء کے ذاتی معاملات پر ہی ان سے باز پرس ہوئی۔ گورنر حمص سعید بن عامرؓ سے صرف اس لیے باز پرس ہوئی کہ فجر سے اشراق کی نماز تک لوگوں کو دستیاب نہیں ہوتے تھے۔ ہفتے میں ایک دن لوگوں سے ملاقات نہیں کرتے تھے۔ رات کو بھی لوگوں سے نہیں ملتے تھے۔ اور بار بار بے ہوش ہوجاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں طلب کیا سعید بن عامرؓ نے وضاحت کی کہ صبح کے وقت گھر کے کام کاج کرتا ہوں۔ ایک جوڑا ہے جو ہفتے میں ایک دن دھوتا ہوں تو بیوی کی چادر لپیٹ لیتا ہوں۔ اور رات کو اللہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں۔ حضرت خبیبؓ کی شہادت کا واقعہ یاد کر کے بے ہوش ہوجاتا ہوں۔ عدلیہ کے ذمے داروں کو اسلامی تاریخ کا تھوڑا بہت مطالعہ تو کرلینا چاہیے اس کے بعد ریمارکس دینے چاہییں۔جس طرح فلیٹ اور جائداد چھپانا جرم ہے اسی طرح بیٹی چھپانا جرم ہے۔ دلچسپ مماثلت یہ ہے کہ اگر الزامات درست ہیں تو تینوں چھپائی گئی چیزیں ناجائز ہیں۔ دوسروں کے عیب چھپانے کا اصول تسلیم کرلیا جائے تو پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو بند کردیا جائے جو دوسروں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں دائر درخواستیں پھاڑ کر پھینک دی جائیں کہ ان میں بھی دوسروں کے عیوب ظاہر کیے گئے ہیں۔ مگر عدالتوں میں کیا ہوتا ہے، اس پر بھی غور کرلیا جائے یا یہ حکم صرف برسراقتدار وزیر اعظم کے لیے ہے ؟