ایک صاحب علم کی ایمان افروز تحریر (حصہ دوم)

438

 

 

آپ کے استفسار سے مجھے یہی لگتا ہے کہ آپ کا سوال شوقیہ طور پر کتا پالنے کی طرف ہے اور عموماً سوالات اور مباحث اس کے متعلق اٹھتے ہیں، کیوں کہ مغربی تہذیب کو اپنانے کا رجحان روز بروز مسلمان ملکوں میں بھی بڑھ رہا ہے، میں شوقیہ کتا پالنے کو سخت حرام اور گناہ جانتا ہوں، اگر علماء اور دینی رہنماؤں نے اس میں کسی بھی بنا پر ڈھیل دینی شروع کردی تو شوقیہ کتا رکھنا اتنا عام ہوجائے گا کہ مسلمانوں کے دل سے اس کے گناہ ہونے کا تصور ہی نکل جائے گا، وہی ہوگا جو مسلمانوں نے ڈاڑھی کا حال کر رکھا ہے، بلکہ احکامِ شریعت پر مضبوطی سے کاربند رہتے ہوئے عوام کو اس کی ممانعت کے شرعی احکام بتائے جائیں، اس کے لیے سائنسی دلائل دینے سے اجتناب کریں۔ تاہم علماء کے لیے سائنسی دلائل کا جاننا مفید ہے، کیوں کہ انہیں ہر طرح کی ذہنی سطح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان دلائل کو کتا پالنے کی ممانعت کی دلیل کے طور پر تو استعمال نہ کیا جائے، تاہم ان کو بیان کر کے شوقین مزاج لوگوں کو محتاط رہنے کی تلقین کی جاسکتی ہے، جس کی اساس یہ احادیثِ مبارکہ ہیں:
’’سیدنا نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کی حفاظت کر لی اور جو شخص شبہات میں ملوث ہوگیا، وہ اس چرواہے کی طرح ہے جو شاہی چراگاہ کے گرد اپنے مویشی چراتا ہے، خدشہ ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائیں گے، سنو! ہر بادشاہ کی ایک ممنوع چراگاہ ہوتی ہے، سنو! اس زمین میں اللہ کی ممنوع چراگاہ اس کے حرام کیے ہوئے کام ہیں، سنو! جسم میں گوشت کا ایک ٹکرا ہے، جب وہ درست ہو تو پورا جسم درست ہوتا ہے اور جب اس میں فساد ہو تو پورا جسم فاسد ہوجاتا ہے، سنو! وہ دل ہے، (بخاری)‘‘۔ (2) ’’سیدنا سعد بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے فرمایا: جب تم کسی زمین میں طاعون کی خبر سنو تو اس زمین میں مت داخل ہو اور جب کسی سرزمین میں طاعون کی وبا پھیل چکی ہو اور تم وہاں پرموجود ہو، تو وہاں سے نہ نکلو، (بخاری)‘‘۔ طاعون زدہ بستی سے نکلنے کی ممانعت کی حکمت یہ ہوسکتی ہے کہ اس بیماری کے جراثیم سے باہر کے لوگ محفوظ رہیں، نیز موت تو اُسے ہی آئے گی جس کی اجل آچکی ہے، لیکن مرنے والوں کی تجہیز وتکفین، جنازہ اور تدفین اُن کی ذمے داری ہے جو زندہ رہ جاتے ہیں، احتیاط کا حکم تو قرآنِ کریم میں بھی ہے: ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، (البقرہ: 195)‘‘۔
جسمانی لحاظ سے تو اس کا مطلب ہوگا کہ خود کشی مت کرو اور روحانی اعتبار سے اس کا ایک مفہوم ابو ایوب خالد بن زید نے بیان فرمایا: ’’مسلمان نقصان دہ چیزوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرے‘‘، یعنی ایسی چیزوں میں ارادتاً نہ پڑے جو نقصان پہنچاتی ہیں، شوقیہ کتا پالنے میں احتیاط انسان کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ آپ نے بتایا کہ کتے کے شکار کا حلال ہونا بعض ماہرین کی رائے میں اس لیے ہے کہ شکار کے وقت کتے کا لعاب خشک ہوجاتا ہے، مجھے یہ قبول کرنے میں بہت ہچکچاہٹ ہے۔ میرے اور ہر مسلمان کے لیے اتنا کافی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے کتے کے شکار کو جائز کہا اور اللہ تعالیٰ نے کتے کو مُکَلِّبِیْن (شکاری جانوروں) میں شامل فرمایا اور قرآنِ کریم میں اس کا وصف تربیت یافتہ یا سِدھایا ہوا بتایا ہے، فقہ میں اس کی شرائط کا تفصیلی بیان ہے۔
میرا معیارِ عقیدت تو یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ؐ نے یہ فرمایا ہوتا: ’’کتے کے منہ میں چمچہ ڈال کر اسے چاول کھلاؤ‘‘، تو میں ایسا ہی کرتا، گو میں خود سائنس دان ہوں، کیوں کہ جو ہستی مخصوص لوگوں کے لیے اونٹوں کا پیشاب پینے کو ذریعہ شفا بناسکتی ہے، وہ چاہے توکتے کے لعاب کے متعلق بھی کہہ سکتی ہے، لہٰذا کتے کا شکار فقط اس لیے جائز ہے کہ اس ہستی نے ایسا کہہ دیا اور بس!۔ ماہرین کا یہ کہنا کہ شکار کرنے کے وقت کتے کا لعاب خشک ہوجاتا ہے، ایسے دلائل پر بحث علماء تک ہی محدود رہنی چاہیے، عوام کو اس میں مبتلا کرنے سے وہ ذہنی انتشار کا شکار ہوسکتے ہیں، چنانچہ سیدنا علی نے فرمایا: ’’لوگوں سے (صرف) ایسی احادیث بیان کرو، جن کو وہ سمجھ لیں، کیا تم یہ پسند کروگے کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے، (بخاری)‘‘۔
اب میں ان باتوں کی طرف آتا ہوں جو علماء اگر چاہیں تو لوگوں کو ممانعت کی دلیل کے طور پر نہیں، بلکہ محتاط رہنے کی غرض سے بتا ئیں۔ اولاً تو کتے سے کئی لوگوں خاص کر بچوں کو حساسیت یا الرجی یا Reaction ہوجاتا ہے اور اس سے اور بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، مثلاً: دمہ وغیرہ اور کتا اگرگھر کے اندر ہے تو ہر جگہ حتی کہ باورچی خانہ تک میں اس کے بال بکھر جاتے ہیں۔ کتا مختلف مہلک بیماریوں کا باعث بنتا ہے، بلکہ بہت سی بیماریوں کے جرثومے کے لیے اسٹاک کا کام دیتا ہے، یہ جرثومے اس کے لعاب، پیشاب وپاخانہ کے ذریعے انسانوں میں داخل ہوتے ہیں، مثلاً فیتہ کیڑے کی ایک بیماری (Coenurosis) انسانوں میں ایسے پھیلتی ہے کہ کتے کا پاخانہ مٹی میں مل جاتا ہے اور اس مٹی میں بچے کھیلتے ہیں تو وہاں سے فیتہ کیڑے کے انڈے ان کے دماغ اور آنکھوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کالے بخار (Kala Azar) کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا، اس کا ذخیرہ (Reservoir) بھی کتا ہے۔ ایک دفعہ ہندوستان کی ریاست بہار میں یہ بیماری ایک لاکھ آدمیوں کو لاحق ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے 4000 اموات ہوئیں۔ میں نے خود بھی بچوں میں آنکھوں کی بیماری کئی بار دیکھی جو کبھی اندھا کردیتی ہے، اس کو Taxocara کہتے ہیں اور چوں کہ یہ کتوں سے پھیلتی ہے، اس لیے اس کا نام Taxocana Canis یعنی کتوں کا Taxo Cara رکھ دیا گیا ہے۔
ایک اور بیماری ایسی ہے جس میں آنکھ، دماغ، پھیپھڑے اور دوسرے جسمانی حصوں میں چھوٹے چھوٹے غباروں کی طرح کی خطرناک Cysts بننی شروع ہوجاتی ہیں اور ان اعضاء کو تباہ کردیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے لیے مشکل یہ بھی ہے کہ اگر ایک Cyst کو نکالنے کے دوران اس کی دیوار پھٹ جائے تو درجنوں اور قسم کے Cyst مریض کے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ میں نے آنکھ کے اندر ایک بیماری Echinococcosis کی بابت پاکستانی ڈاکٹروں کی معلومات کے لیے ایک آرٹیکل بھی لکھا تھا، اس کا دوسرانام Hydatidcyst بھی ہے اور بھی کئی بیماریاں کتے سے پیدا ہوتی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور Rabies ہے جو انتہائی خطرناک اور مہلک بیماری ہے۔ اس کا تعلق کتے سے اتنا قریب ہے کہ عربی میں اس کا نام ’’دَاءُ الْکَلْب‘‘ اور فارسی میں ’’جنونِ سگ گزیدگی‘‘ ہے، پاکستان میں یہ ہلکاؤ یا باولے پن کے نام سے موسوم ہے۔ بعض کتے یک دم اور بلا وجہ بہت ظالم اور وحشی ہوکر انسانوں پر حملہ کردیتے ہیں، ایسے میں وہ بعض اوقات تو اپنے مالک اور اس کے بچوں تک کا خیال نہیں کرتے، میں نے ایسے بہت سے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے جن میں کتے نے گھر کے بچے پر وحشیانہ حملہ کرکے چہرے کو ایسے چیر پھاڑ دیا کہ گھنٹوں کی جراحی کے بعد بھی اس کو بالکل صحیح نہ کیا جاسکا۔ میں نے ایک ایسے بچے کو دیکھا جو میرے اسپتال کی ایک نرس کا بیٹا تھا، مجھے اس پر چار گھنٹے کے قریب جراحی کرنی پڑی اور تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب ٹانکے لگانے پڑے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کے لوگوں کو شوقیہ کتے پالنے کی وبا سے محفوظ رکھے۔ اگر میری اس تحریر کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی آپ کے ذہن میں کوئی اشکال باقی ہو، تو مجھے لکھیں‘‘۔
یہ میں نے اس لیے لکھا: یہ کسی مولوی یا مفتی کی تحریر نہیں ہے، بلکہ ایک ایسے ماہر سائنس دان اور سرجن کی تحریر ہے، جس نے امریکا میں طب کے میدان میں نام پایا ہے، اُن کے بے شمار تحقیقی مضامین طبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں اور آنکھ کے علاج کا ایک ڈاکٹرائن اُن کے نام سے موسوم ہے۔ لیکن ان کا تفسیر وحدیث کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور ڈاکٹر صاحبان اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز پر مشتمل اُن کا حلقۂ درس بھی ہے، ایسے ہی لوگوں پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے:

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا، خاکِ مدینہ ونجف
جس کی بصیرت اور بصارت نے خاکِ مدینہ سے فیض پایا ہو، اُسے مغربی تہذیب کی چکا چوند مرعوب نہیں کرسکتی، وہاں کی تہذیبی بربادی کا وہ کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں اور اس سے قرآن وسنت اور دینِ اسلام کی حقانیت پر اُن کا ایمان اور مضبوط ہوتا ہے، جب کہ ہم یہاں بیٹھے اُن سے مرعوب ہوتے رہتے ہیں۔ کاش! جس طرح ہمارے اَسلاف نے ماضی میں فلسفۂ یونان کا مطالعہ کیا، اُس کی گہرائی میں اترے اور پھر اُسی کے اصول وضوابط کو استعمال کرتے ہوئے اس کا رد کیا۔ آج بھی ہمیں چاہیے کہ دہشت گردی کی ملامت سے نکل کر علم کے ہتھیار کو استعمال کریں اور ایمان وایقان کو اپنی روحانی طاقت بنائیں، علامہ اقبال نے کہا تھا:
خودی کا سرِّ نہاں، لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لا الہ الا اللہ
ترجمہ: خودی کا راز ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ میں پوشیدہ ہے، خودی یعنی توحید پر ایمان تلوار ہے اور لا الٰہ الا اللہ پر ایمان اس کی دھار ہے اور مولانا حسن رضا خان نے کہا ہے:
وہاں کے سنگ ریزوں سے، حسن کیا لعل کو نسبت
وہ ان کی رہگزر میں ہیں، یہ پتھر ہیں بدخشاں کے