ایس آربی 2018-19میں 120ارب روپے کا ریونیو وصولی کا ہدف حاصل کرلے گا،خالد محمود
وزیراعلیٰ سندھ بتائیں ایس آربی کا100 ارب روپے کا ریونیو کہاں استعمال ہوتا ہے؟چیئرمین بی ایم جی
سندھ ریونیو بورڈ کے چیئرمین خالد محمود نے کہا ہے کہ ایس آر بی نے اپنے قیام سے اب تک ہر سال ریونیو وصولی کے تمام اہداف حاصل کیے اور 30جون2019کو ختم ہونے والے رواں مالی سال کا 120ارب روپے کا ہدف بھی حاصل کرلیا جائے گاجبکہ جولائی تا دسمبر2018تک 44ارب روپے کا ریونیو پہلے ہی جمع کیا جاچکاہے۔ایس آربی نے2010-11 میں اپنے آپریشن کا آغاز محض16.6ارب روپے کیاجو 2011-12میں25ارب،2012-13میں33ارب،2013-14 میں42ارب،2014-15 میں 49ارب،2015-16میں61ارب،2016-17 میں78ارب اور2017-18 میں100ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ایس آر بی صوبائی خزانے میں واحد سب سے بڑا حصہ دار ہے۔گزشتہ چندسالوں میں ایس آر بی کی ریونیو وصولی میں کراچی کی تاجربرادری کی شراکت،حمایت اور معاونت کی وجہ سے27فیصد اضافہ ہوا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میں کیا۔اس موقع پر بزنس مین گروپ کے چیئرمین وسابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی،وائس چیئرمین بی ایم جی طاہر خالق،کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا،سینئرنائب صدر خرم شہزاد،نائب صدر آصف شیخ جاوید،چیئرمین جی ایس ٹی،ایس آر بی سب کمیٹی شکیل الرحمان اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔
چیئرمین ایس آر بی نے کہاکہ اگرچہ ایس آربی عدالتی حکم کے تحت گزشتہ 6ماہ سے موبائل فون سروسز پر سیلز ٹیکس وصول نہیں کررہا جس مشکل صورتحال پیدا تو ضرور ہوئی تاہم بورڈ کافی محنت کررہا ہے اور ہمیں اُمید ہے کہ ہم 120ارب روپے کا ہدف حاصل کرلیں گے۔فی الوقت ایس آر بی میں 29ہزار ٹیکس گزار رجسٹرڈ ہیں اور ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ایس آر بی ٹیکس گزاروں کو ای رجسٹریشن، ای افائلنگ،نا ن فائلرز کو ای نوٹسز، آن لائن بینکنگ کے ذریعے ای پیمنٹ اور کال سینٹر ودیگر مختلف آن لائن سہولتیں فراہم کر رہاہے۔بورڈ نادرا،پرال اور دیگر اداروں کے ساتھ بھی منسلک ہے جبکہ ہمارا سسٹم مکمل طور پر سینٹرالائزڈ ہے۔ایس آر بی کی کامیابی کو اس کے آٹومیشن اور تربیت یافتہ افرادی قوت سے منسوب کیا جاسکتا ہے جو ٹیکس گزاروں کو مکمل مدد فراہم کرتے ہیں اور تمام سوالات کا بھی فوری جواب دیاجاتا ہے۔
چیئرمین ایس آر بی نے کے سی سی آئی کو نوٹسز کے اجراء پر چیئرمین بی ایم جی کے تحفظات کے جواب میں یقین دہانی کروائی کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی صورت نکالیں گے تاکہ کراچی چیمبر کو مزید کوئی نوٹسز جاری نہ کیے جائیں کیونکہ کے سی سی آئی بحیثیت ادارہ کسی قسم کی کمرشل سرگرمیوں میں نہ تو بذات خود ملوث ہے اور نہ ہی ان سرگرمیوں کا ذریعہ ہے۔انڈینٹرز،ٹوور آپریٹرز اور تعمیراتی شعبے کو ٹیکسیشن سے درپیش مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ٹیکسیشن سے متعلق تمام مسائل پر گفت و شنید کی جاسکتی ہے اور خوش اسلوبی سے انہیں حل کیا جاسکتا ہے جبکہ اگلے بجٹ میں ریلیف کا بھی اعلان ہوسکتا ہے۔انہوں نے کے سی سی آئی اور دیگر اسٹیک ہولڈرزسے کہاکہ وہ مسائل کا باہمی طور پر قابل قبول حل نکانے کے لیے ایس آر بی کے ساتھ بیٹھیں تاکہ کوئی ایسا راستہ نکالا جاسکے کہ موجودہ دہ ٹیکس گزاروں کو ریلیف ملنے کا ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے ۔
چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی نے کے سی سی آئی کی جانب سے وقتاً فوقتاً اجاگر کیے گئے مسائل کے حل میں چیئرمین ایس آر بی کی دلچسپی کو سراہتے ہوئے کہاکہ ایس آر بی کا عملہ کراچی چیمبر کو نوٹسز بھیج رہاہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتاکیونکہ کے سی سی آئی منافع کمانے والا دارہ نہیں بلکہ یہ مکمل طور پر ایک ٹریڈ باڈی ہے جہاں تمام ترسرگرمیاں تاجروصنعتکار کی فلاح وبہبود کے لیے انجام دی جاتی ہیں لہٰذا ایس آر بی کو کے سی سی آئی کے کردار کو سمجھنا چاہیے اور فوری طور پر چیمبر کو بھیجے گئے نوٹسز کو روکنا چاہیے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔
انہوں نے ایس آر بی کی جانب سے 100ارب ریونیو وصولی کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ پر زور دیا کہ وہ اس ریونیو کے استعمال کی تفصیلات کو عیاں کریں اور ان کی تشہیر کی جائے ۔ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں اگر ایس آربی کے وصول شدہ ریونیو کوحیدرآباد،لاڑکانہ،نواب شاہ،سکھر یا صوبے کے کسی اور شہر پر خرچ کیاجارہا ہے لیکن سندھ حکومت کو کراچی کے لیے مختص فنڈز کو بھی بڑھانا چاہیے جو ایس آر بی وصول کرتا ہے اور اس شہر کو اس کا جائز حق ضرور ملنا چاہیے۔ انہوں نے چیئرمین ایس آر بی کو مشورہ دیا کہ وہ ایس آر بی کی جانب سے شہر کے لحاظ سے جمع ہونے والاریونیو ظاہر کریں اور اسے عوامی سطح پر مشتہر کیا جائے ہمارا یہ مطالبہ جائز ہے اور اس میں کوئی نقصان نہیں۔
سراج تیلی نے کہاکہ چاہے سندھ ہو یا صوبہ پنجاب سے حکومت بنے وقتاًفوقتاً برسر اقتدار آنے والی مختلف حکومتوں نے کراچی کے ساتھ براسلوک کرتے ہوئے اسے نظرانداز کیا ۔ہم یہ نہیں چاہتے کہ کراچی سے حاصل ہونے والا تمام ریونیو اس شہر پر خرچ کردیا جائے لیکن ہم اس شہر کو جائز حق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ٹیکسوں کو عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ کراچی والے بھی خطیر ٹیکس دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ ٹیکس کہیں استعمال ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا اور ہم نہیں جانتے کہ یہ فنڈز کہاں اور کیسے استعمال کیے جاتے ہیں۔
کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے اس موقع پر زور دیا کہ سروسز پر سندھ سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کی جانی چاہیے اور کریڈٹ سہولت کی دستیابی کے ساتھ سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے جبکہ برآمدی وجدوجہد کرتی صنعتوں کو ایس ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دیاجائے۔انہوں نے کہاکہ نجی سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کی گئیں سیکیورٹی سروسز پر ایس ایس ٹی کا نفاذ متنازع ہے جو اس کاروبار کو ناقابل عمل بنا رہاہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے انڈینٹرز کو ایس ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دینے پر بھی زور دیتے ہوئے کہاکہ انڈینٹرز مقامی سطح پر خدمات فراہم نہیں کرتے بلکہ وہ غیر ملکی پرنسپلز کو اپنی خدمات برآمد کرتے ہیں اور وفاقی حکومت کو 5فیصد ودہولڈنگ بھی ادا کرتے ہیں۔ٹریول ایجنٹس اور ٹوور آپریٹرز کے لیے پاکستان بھر میں ایس ایس ٹی کی یکساں شرح کیا جائے جبکہ مذہبی سیاحت،حج و عمرہ زائرین کو خدمات فراہم کرنے والے ٹوور آپریٹرز و ٹریول ایجنٹس کو ایس ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دیاجائے۔
انہوں نے سندھ ورکر ویلفیئر فنڈکا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایس ڈبلیو ڈبلیوایف مجموعی آمدنی پر لگایا جاتا ہے اور اس کا مزدور یا کارکن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ سندھ سے حاصل ہونے والی آمدنی کے بجائے آجر کی مجموعی آمدنی پر لگایا جاتا ہے لہٰذا یہ ایک غیر معقول اقدام ہے اور اسے خامیوں کو دور کرنے تک روک دینا چاہیے۔