نہرو نے کشمیر کے مشترکہ الحاق کی تجویز کی حمایت کی تھی؟

246

برطانیہ کی خفیہ دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ 1948 میں جب کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں زیر بحث تھا، کشمیر کے ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ مشترکہ الحاق کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ یہ تجویز کس نے پیش کی تھی اور کس کے ایما پر پیش کی گئی تھی اس کا انکشاف برطانیہ کے دولت مشترکہ کے تعلقات کے وزیر گورڈن واکر کے اُس خفیہ تار سے ہوتا ہے جو انہوں نے 20 فروری 1948 کو دلی میں ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت نہرو سے اپنی ملاقات کے بارے میں برطانوی حکومت کو بھیجا تھا۔ یہ تار ان دستاویزات میں شامل ہے جن کی فائل ایک طویل عرصہ کے بعد پچھلے دنوں پہلی بار کھولی گئی ہیں۔ گورڈن واکر کے اس تار سے انکشاف ہوا ہے کہ فروری 1948 میں دلی میں ہندوستان کے وزیر اعظم نہرو اور گورڈن واکر کے درمیان ملاقات میں شیخ عبداللہ نے ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مشترکہ الحاق کی تجویز پیش کی تھی اور ان کا اصرار تھا کہ مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کے لیے یہ تجویز برطانیہ اور امریکا کی طرف سے پیش کی جائے۔ بعد میں نہرو نے گورڈن واکر سے کہا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا تصفیہ شیخ عبداللہ کی اس تجویز کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔
فروری 1948 میں برطانیہ کے دولت مشترکہ کے وزیر گورڈن واکر کشمیر کا تنازع سلامتی کونسل کے باہر طے کرانے کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان روبرو ملاقات کی کوشش کے لیے دلی اور کراچی کے دورے پر گئے تھے۔
کشمیر کے مشترکہ الحاق کے بارے میں جس انداز سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی وہ ڈرامے سے کم نہیں تھا۔ 20 فروری 48 کو دلی میں یہ ملاقات دراصل پنڈت نہرو اور گورڈن واکر کے درمیان تھی لیکن عین اُس وقت جب یہ ملاقات ہورہی تھی نہرو، شیخ عبداللہ کو کمرے میں لے آئے اور وہ یہ
کہہ کر کمرے سے چلے گئے کہ گورڈن واکر اور شیخ عبداللہ اکیلے میں بات چیت کر لیں۔ اس سے پہلے کہ نہرو کمرے سے باہر جاتے، شیخ عبداللہ نے ہندوستان اور پاکستان سے کشمیر کے مشترکہ الحاق کی تجویز پیش کی، اس موقع پر گورڈن واکر کی نہرو سے اس تجویز پر تفصیل سے بات نہیں ہو سکی، البتہ جب بعد میں بات ہوئی تو نہرو نے یہ اشارہ دیا کہ کشمیر کے مسئلہ کا تصفیہ اس تجویز کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ تمام قرائین سے بات واضح ہوتی ہے کہ شیخ عبداللہ نے نہرو سے پوری طرح سے صلاح مشورہ اور ان ہی کے ایما پر برطانوی حکومت کو یہ تجویز پیش کی تھی اور اس کا مقصد استصواب رائے کی پیش کش سے دامن چھڑانا تھا۔ گورڈن واکر کے ساتھ اس ملاقات میں شیخ عبداللہ نے یہ دعوی بھی کیا کہ پاکستان کی حامی اور ان کی حریف سیاسی جماعت مسلم کانفرنس مشترکہ الحاق کے حل کو تسلیم کر لے گی اورانہیں بھروسا تھا کہ وہ اپنی جماعت نیشنل کانفرنس سے بھی اس کی منظوری حاصل کر لیں گے۔ اس موقع پر نہ تو شیخ عبداللہ نے اس بات کی وضاحت
کی کہ وہ کس بنیاد پر یہ دعوی کر رہے ہیں اور نہ گورڈن واکر نے اس دعوے کی بنیاد جاننے کی کوشش کی۔ گورڈن واکر نے اپنے تار میں یہ انکشاف بھی کیا کہ انہوں نے کشمیر کی تقسیم کا امکان ٹٹولنے کی کوشش کی تھی اور استفسار کیا تھا کہ استصواب رائے پوری ریاست جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر ہو یا الگ الگ علاقوں میں الگ الگ ہو اور ان کے نتائج کے مطابق کشمیر کی تقسیم ہو۔ اس ملاقات میں نہرو نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ گو وہ اب مزید تقسیم کے خلاف ہیں لیکن اگر استصواب رائے کے نتیجے میں کشمیر تقسیم ہوتا ہے تو وہ اس کو رد نہیں کریں گے۔
29 فروری 48 کی اس ملاقات میں نہرو نے گورڈن واکر سے کہا تھا کہ گو وہ ہمیشہ پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن یہ بات چیت سود مند ثابت نہیں ہوگی۔ گورڈن واکر نے اس ملاقات میں نہرو کو لیاقت علی خان سے رو برو بات چیت پر راضی کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کی تھی کہ اس وقت جب کہ سلامتی کونسل میں بحث ملتوی ہے بات چیت بہتر رہے گی اور ان کا خیال تھا کہ پاکستان بھی اس بات چیت کے لیے آمادہ ہو جائے گا کیوں کہ ان کی اطلاع کے مطابق، قبائلی پاکستان کے لیے شدید مسئلہ بنتے جارہے ہیں۔
گورڈن واکر نے اپنے تار میں لکھا تھا کہ نہرو کا یہ اصرار تھا کہ استصواب رائے کے دوران شیخ عبداللہ کی عبوری حکومت بر قرار رہے اور سلامتی کونسل استصواب کے لیے جو شخص بھی نامزد کرے اسے یہ عبوری حکومت مقرر کرے۔ نہرو نے یہ یقین دلایا تھا کہ قبائلیوں کی واپسی کے بعد ہندوستان کی فوج کی خاصی تعداد کشمیر سے واپس بلا لی جائے گی اور جو ہندوستانی فوجی دستے وہاں رہیں گے وہ پورے کشمیر کے بجائے چند خاص علاقوں میں تعینات رہیں گے۔ دلی کی ملاقات کے بعد گورڈن واکر سیدھے کراچی گئے تھے جہاں وزیر اعظم لیاقت علی خان اور گورنر جنرل محمد علی جناح سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کے بارے میں گورڈن واکر نے اپنے تاروں میں کہا تھا کہ لیاقت علی خان نے مجوزہ استصواب رائے کے نتیجے میں کشمیر کی تقسیم کے امکان کو یکسر مسترد کردیا اور کہا کہ یہ پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہوگا اس کے ساتھ لیاقت علی خان نے زور دیا کہ ریاست میں استصواب کے لیے لازمی ہے کہ وہاں سے ہندوستانی فوج واپس بلا لی جائے اور غیر جانبدار حکومت نظم و نسق سنبھالے۔ یہ بات اہم ہے کہ گورڈن واکر نے لیاقت علی خان سے کشمیر کے مشترکہ الحاق کے بارے میں شیخ عبداللہ کی تجویز پر بات نہیں کی۔
گورڈن واکر نے قائد اعظم سے اپنی ملاقات کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کا کہنا تھا کہ شیخ عبداللہ کی حکومت کی موجودگی میں استصواب ایک گھٹیا ناٹک ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ سیدھا سادا ہے۔ ہر مسلمان پاکستان میں شامل ہونا چاہتا ہے اور ہر ہندو ہندوستان میں شامل ہونا چاہتا ہے اور کشمیر میں بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ گورڈن واکر کے دلی اور کراچی کے دوروں کے بعد برطانوی حکومت کی یہ رائے تھی کہ کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم کی بات چیت کرانے کی کوشش بے سود ہے۔ چنانچہ یہ کوشش ترک کردی گئی۔