تجاوزات کے لیے بندوق اٹھائیں !

260

ابھی کراچی کو کھنڈر بنانے کا عمل جاری ہے اور عدلیہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر عوام پر چلائی جارہی ہے۔ تجاوزات ہٹانے کے نام پر اب تک جو کچھ ہوا ہے اندھا دھند ہوا ہے۔ تاہم اب عدالت عظمیٰ نے ایک اور حکم جاری کیا ہے اور بہت سخت ہدایات دی ہیں۔ گزشتہ منگل کو عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے تجاوزات پر نہایت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں گرادیں خواہ اس کے لیے بندوق اٹھانی پڑے یا کچھ اور کرنا پڑے، شہر کو 40سال پہلے والی پوزیشن پر لائیں۔ عدالت عظمیٰ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اس سے بندوق برداروں کو کھلی چھوٹ بھی مل سکتی ہے کہ احتجاج کرنے والوں پر گولی چلادیں اور کہہ دیں کہ عدالت نے حکم دیا ہے۔ شہر میں تجاوزات کی بھرمار سے صورت حال یقیناًسنگین ہے اور تجاوزات ختم کرنے کے لیے سخت اور بلا امتیاز اقدامات کرنا ہوں گے۔ تاہم کراچی میں عدلیہ پر رکھ کر اب تک جو کچھ ہوا ہے اسے صرف ظلم ہی کہا جاسکتا ہے۔ جن دکانوں اور مارکیٹوں کو مسمار کیا گیا ہے ان میں سے کتنی ایسی تھیں جو بلدیہ نے الاٹ کی تھیں اور ان کا کرایہ وصول کیا جارہا تھا۔ کچی آبادیاں بسائی گئیں جنہیں بجلی، پانی فراہم کیے جارہے تھے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے خرابی کی ذمے داری دوسروں پر ڈال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی پر کراچی چڑھا دیا گیا ہے، متعدد کچی بستیاں بسائی گئی ہیں اور رفاہی پلاٹوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ ان تمام خرابیوں میں بڑا حصہ وسیم اختر کی اپنی پارٹی کا ہے۔ پارکوں اور رفاہی پلاٹوں پر قبضے میں ایم کیو ایم سرفہرست ہے، چائنا کٹنگ بھی اسی کی ایجاد ہے۔ اس کا اعتراف ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین بھی کرچکے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو دھمکی دی تھی کہ واپس آ کر انہیں سزا دوں گا۔ جس وقت کراچی پر قبضے ہو رہے تھے وسیم اختر کی پارٹی ہی شہر پر قابض تھی۔ بلدیہ اور اس کے ادارے ایم کیو ایم کے پاس تھے۔ فاروق ستار اور مصطفی کمال میئر رہ چکے ہیں۔ خود وسیم اختر مشیر داخلہ تھے۔ عدالت عظمیٰ نے 40سال پرانے شہر کی بات کی ہے، گزشتہ 40سال میں اس شہر پر ایم کیو ایم ہی کا قبضہ رہا ہے، کچی آبادیاں بھتا وصول کرنے کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں۔ اس کام میں پیپلز پارٹی بھی برابر کی شریک رہی ہے کیوں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی اقتدار میں برابر کے شریک رہے ہیں ۔ تاہم پیپلز پارٹی کی لوٹ مار بڑے پیمانے پر رہی چنانچہ دونوں نے ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ زمینوں کا غلط استعمال سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی معاونت سے ہو رہاہے۔ عدالت عظمیٰ نے انتباہ کیا ہے کہ اگر فیصلے پر عمل نہ ہوا تو ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے کو گھر بھیج دیں گے۔ ویسے تو اہم مناصب پر بیٹھے ہوئے افسران کو گھر بھیجنے سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس انجام کی تیاری پہلے کرلی جاتی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ڈی جی افتخار قائم خانی کا چپراسی بھی کروڑ پتی ہے چنانچہ ان کو منصب سے ہشا بھی دیا تو ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اگر کسی نے کوئی غلط کام کیا، اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس کا ثبوت موجود ہے تو اسے گھر نہیں جیل میں بھیجنا چاہیے۔ فی الوقت عدالت عظمیٰ نے رہائشی عمارتوں کو تجارتی بنانے اور کمرشل عمارتوں کا این او سی جاری کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ رفاہی اراضی فوری واگزار کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ عدالت اس پر برہم تھی کہ شہر لاوارث ہے، اسے جنگل اور گٹر بنا دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ غیر قانونی شادی ہال، شاپنگ مال اور پلازے تعمیر کردیے گئے ہیں۔ عدالت کے حکم کا اطلاق چھاؤنی علاقوں پربھی ہوگا۔ لیکن کیا ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے کنٹونمنٹ کے علاقوں میں بھی عدالتی حکم پر عمل کراسکیں گے؟ زمینوں کی لوٹ مار اور قبضے کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے اپنے کراچی کے منصوبے کو بچانے کے لیے 16ہزار ایکڑ اراضی کے عوض 358ارب روپے دینے کی پیش کردی ہے۔ یہ سودے بازی ابھی آگے بڑھے گی لیکن اس سے ظاہر ہے کہ 16ہزار 896 ایکڑ اراضی پر قبضہ غیر قانونی ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضے میں حکمران بھی ملوث رہے ہیں۔ اب تک تو تجاوزات اور قبضوں کے لیے بندوق استعمال کی جاتی رہی ہے اب عدالت کہتی ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے بندوق اٹھائیں۔ مگر کیا نہایت بااثر قبضہ گیر بندوق سے ڈر جائیں گے۔