حقائق سامنے نہیں آئیں گے

135

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے مطالبہ کیا ہے کہ سانحہ ساہیوال کا سچ سامنے لایا جائے ورنہ چین سے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ اس مطالبے پر حیرت کا اظہار کیا جائے یا شہباز شریف سے اظہار ہمدردی۔ یہی مطالبہ ان سے اس وقت کیا گیا تھا جب سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا تھا۔ اور مطالبہ کرنے والوں نے آج تک انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ شہباز شریف پر تو یہ الزام بھی ہے کہ وہ پنجاب میں بندے پھڑکانے کے سلسلے کے بانی ہیں۔ سبزہ زار لاہور کا پولیس مقابلہ انہی کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے اور عابد باکسر انسپکٹر بھی حکومت پنجاب کا پروردہ تھا۔ وہ اگر بانی نہ بھی ہوں تو طویل عرصہ پنجاب میں یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس میں شہباز شریف کی حکمرانی کا بڑا حصہ بھی رہا ہے۔ سانحہ ساہیوال کے حقائق عوام کے سامنے نہیں آسکیں گے کیوں کہ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ عام نہیں کی جائے گی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے سیاست کی تھی اب یہی سیاست مسلم لیگ ن اور دیگر پارٹیاں کریں گی۔ جو حکومت میں ہوتا ہے وہ اسی طرح معاملات کو گھماتا رہتا ہے جس طرح شہباز شریف کے پورے دور میں گھمایا گیا۔ پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت کو یہ کیسے نظر آیا کہ مقتولوں کی گاڑی کی شیشے سیاہ تھے۔ یہ بھی بات گھمانے کا طریقہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے پر مسلم لیگ ن کس حد تک سیاست کرے گی اور پی ٹی آئی کو کتنا بے چین کرے گی۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کو خصوصاً وزیر اعظم، وزیر اطلاعات اور پنجاب کے وزراء کو اپنے پرانے بیانات پر ہی نظر ڈال لینی چاہیے۔ وہ کہتے تھے کہ ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی سانحہ کسی مہذب ملک میں ہو جاتاتو متعلقہ وزیر اور وزیر اعظم استعفیٰ دے دیتا، ایک لمحہ نہیں لگتا۔ عمران خان کہتے تھے کہ شہباز شریف کو شرم آنی چاہیے عہدے سے چمٹا ہوا ہے۔ اب یہ باتیں ان کے اور ان کے وزیر اعلیٰ کے بارے میں کہی جائیں ، ایسا کیا تو ناراض ہوں گے۔ یہ اتفاق ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے چھ ماہ کے اقتدار میں اس طرح کا واقعہ ہوا ہے جو ماڈل ٹاؤن میں پیش آیا تھا گویا میدان تیار کردیا گیا ہے۔ یہ بھی محل نظر رہے کہ اس طرح کے جتنے واقعات ہوتے ہیں کسی کے حقائق سامنے نہیں آتے۔ اور یہ جو چین نہیں لینے دیں گے کا بیان یا بڑھک ہے اس سے غمزدہ لوگوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا جاتا ہے۔ بے چین تو وہ ہیں اور تمام عمر رہیں گے۔