پی آئی اے صدر دفتر کی اسلام آباد منتقلی

171

وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پی آئی اے کی بحالی کے لیے اہم فیصلے کیے گئے ۔ ان فیصلوں میں یہ قدم خوش آئند ہے کہ حکومت نے اہم ترین قومی اثاثے پی آئی اے کی بحالی کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اس طرح اس اہم ادارے کی نجکاری کے بارے میں تمام افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ اسی طرح پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے اس کی مالی معاونت کا فیصلہ بھی قابل تحسین ہے ۔ ان اقدامات کے ساتھ کچھ ایسے بھی فیصلے کیے گئے ہیں جن کی کسی طرح بھی تائید نہیں کی جاسکتی ۔ ان میں سے ایک فیصلہ پی آئی اے کے ہیڈ آفس کی اسلام آباد منتقلی ہے ۔ یہ ایک احمقانہ سوچ ہے کہ ہر ادارے کا ہیڈ آفس دارالحکومت میں ہونا چاہیے ۔امریکا کا معاشی حب وال اسٹریٹ نیو یارک شہر میں واقع ہے ۔ ایک مرتبہ بھی اسے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں منتقل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ اسی طرح ترکش ائرلائن کا حب اور اس کے صدر دفاتر استنبول میں ہیں اور انہیں بھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ منتقل کرنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی ۔ یہ ایک عجیب منطق ہے کہ دارالحکومت میں پی آئی اے کا ہیڈ آفس ہونے سے اس کا سرکاری دفاتر سے رابطہ بہتر رہے گا۔ کیا پی آئی اے کا سربراہ ہر وقت ایوی ایشن ڈویژن میں یا وزارت خزانہ میں سر جھکائے بیٹھا رہے گا ۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ پی آئی اے میں انتظامات بہتر بنانے کے لیے سربراہ اور ڈائریکٹروں کا اس کے حب میں ہونا ضروری ہے ۔ پی آئی اے کے ڈائریکٹروں اور سربراہ کے دارالحکومت منتقل ہونے کا مطلب ادارے میں انارکی ہوگا ۔ جہاں پی آئی اے کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے وہیں پر اس کی تباہی کے اسباب پر بھی غور ہونا چاہیے ۔ پی آئی اے کی تباہی شاہد خاقان عباسی کے دور میں شروع ہوئی تھی جب پی آئی اے کے تجربہ کار انسانی وسائل کو 55 برس کی عمر میں جبری ریٹائر کردیا گیا تھا ۔ اب پھر یہی احمقانہ قدم اٹھایا گیا ہے مگر دوسری صورت میں ۔ یعنی پاک فضائیہ کے 7 باوردی حاضر افسران کو پی آئی اے میں اعلیٰ مناصب پر فائز کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ پاک فوج کے مزید چار باوردی حاضر سروس افسران کو بھی پی آئی اے میں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا جائے گا۔ پی آئی اے شہری ہوابازی کا ایک تجارتی ادارہ ہے ۔ آخر یہ حاضر سروس باوردی افسران یہاں پر کیا کرپائیں گے ۔ ان کا شہری ہوابازی کا کیا تجربہ ہے ۔ جب پاک فضائیہ کا انتہائی تجربہ کار پائلٹ پی آئی اے کا چھوٹے سے چھوٹا جہاز اے ٹی آر نہ تو اڑانے کی اہلیت رکھتا ہے اور نہ ہی اجازت تو پھر یہ افسران کس طرح اتنے بڑے ادارے کو چلا لیں گے ؟ وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جو فرد پاک فضائیہ کے لیے اہل ہے ، وہ پی آئی اے کے لیے اہل نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح پاک فوج کے جس افسر کو جنگ لڑنے کی تربیت دی گئی ہے وہ کس طرح ایک سویلین اور وہ بھی ایک فضائی کمپنی میں کوئی تیر مار سکے گا ۔ بہتر ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان ان دور رس فیصلوں پر دوبارہ سے غور کریں اور انہیں واپس لیں ۔ پی آئی اے میں پیشہ ورانہ اہلیت و قابلیت کے حامل افراد کو متعین کیا جائے ۔ اس کے علاوہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ادارے پر کوئی سیاسی اور کسی اور قسم کا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔ ابھی تو پی آئی اے کے ہیومین ریسورس ڈپارٹمنٹ میں اسماء باجوہ کی تعیناتی کے اسکینڈل کی بازگشت ختم نہیں ہوئی ہے کہ اس میں باہر سے غیر متعلق افراد کی باضابطہ تعیناتیاں شروع ہوگئی ہیں ۔