منی بجٹ، الفاظ کا گورکھ دھندا

158

وزیر خزانہ اسد عمر کے پیش کردہ منی بجٹ پر تنقید و تحسین کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسد عمر کے پیش کردہ منی بجٹ کو پہلی نظر میں ایسا کاسمیٹک بجٹ قرار دیا جاسکتا ہے جس میں پہلی نظر میں سب کچھ بہترین ہے ۔ بڑی گاڑیوں ، سگریٹ اور لگژری آیٹمز پر ٹیکس میں اضافہ ، یوریا کی قیمت میں کمی ، فائلرز کے بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس کٹوتی ختم اورنان فائلرز کو جائیداد اور گاڑی خریدنے کی اجازت دینے ایسے اقدامات ہیں جن کا ہر ایک نے خیرمقدم کیا ہے ۔ اس میں سے فائلرز کے بینک ٹرانزیکشن پر کٹنے والی ٹیکس کٹوتی ختم اورنان فائلرز کو جائیداد اور گاڑی خریدنے کی اجازت دینے کے سوا اس منی بجٹ میں ایسا کچھ نہیں ہے جسے اہم قرار دیا جاسکے ۔ یوریا کھاد بنانے والی کمپنیوں میں قدرتی گیس بطور ایندھن بھی استعمال ہوتی ہے اور بطور خام مال بھی ۔ قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں یوریا کی قیمت میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کی وجہ سے درآمدی یوریا کی قیمت میں ازخود 30 فیصد اضافہ ہوچکا ہے ۔ اس اضافے کے اثرات کو200 روپے فی بوری کمی سے بھی پوری طرح ختم نہیں کیا جاسکے گا ۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری نے ملک کی معیشت کو جس قدر اور جس تیزی کے ساتھ نقصان پہنچایا ہے ، اس کا مداوا ان اقدامات سے ممکن نہیں ہے ۔ بجلی، گیس ، پٹرول کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے اور ڈالرکے مقابلے میں روپے کی بے قدری نے عام آدمی کے ساتھ ساتھ کاروباری اور صنعت کار طبقے کی بھی کمر توڑ کررکھ دی ہے ۔ ان عوامل کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے جبکہ مصنوعات کی لاگت و قیمت میں اضافہ ۔ اس کی وجہ سے درآمدات بڑھ رہی ہیں اور ملکی صنعت دم توڑ رہی ہے ۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے منی بجٹ میں وہی کچھ پیش کیا جس کے خدشات تھے تاہم ان پر چینی چڑھا کر ۔ بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس آئی ایم ایف کی فرمائش پرڈار صاحب نے لگایا تھا جس کی وجہ سے بینکوں میں ڈپازٹ کی شرح تاریخ میں کم ترین سطح پر آگئی تھی ۔ وزیر خزانہ اسد عمر کو یہ فیصلہ بینکوں کے دباؤ پر کرنا ہی تھا اور اس سے عام آدمی کو ضرور فائدہ ہوگا مگر یہ فیصلہ عام آدمی کے دباؤ پرنہیں کیا گیا ہے ۔ اسی طرح نان فائلرز کو جائداداور گاڑی خریدنے سے روکنے کی وجہ سے ایک متبادل معیشت فروغ پارہی تھی ۔ اگر وزیر خزانہ اسد عمر منی بجٹ میں تیل ، گیس اور بجلی کے نرخوں میں قابل ذکر کمی کا اعلان کرتے اور روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں دوبارہ سے ایک سو روپے پر لانے کا اعلان کرتے تو یقیناًاس سے پاکستانی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ۔ حکومت نے متبادل توانائی جس میں دریا اور سمندر کی لہروں سے بجلی پیدا کرنا شامل ہے ، کے منصوبوں کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔ آخر کب تک پاکستانی عوام کو سگریٹ اور دودھ کے ڈبوں پر ایکسائیز ڈیوٹی میں اضافے اور کمی کے لالی پاپ میں الجھا کر رکھا جائے گا۔ حکومت آئی ایم ایف کے دیے گئے معیشت دانوں کے سواکسی آزاد، اہل اور محب وطن معیشت دان سے ملک کی معاشی پالیسی کیوں نہیں بنواتی ۔ اس سے بھی زیادہ افسوس سیاست دانوں پر ہوتا ہے ۔ سرکاری بنچوں پر بیٹھے ہوئے ارکان پارلیمنٹ بلا سوچے سمجھے صرف اپنے وزیر خزانہ کی تقریر پر ڈیسک بجارہے تھے تو حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ بھی بلا سوچے سمجھے اور مدلل بات کیے صرف اور صرف ہنگامہ آرائی میں مصروف تھے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ حزب اختلاف ہی ماہر معیشت دانوں پر مشتمل کوئی کمیٹی تشکیل دے اور ٹھوس معاشی پالیسی کی تجاویز پیش کرکے حکومت کو آئینہ دکھائے ۔ وزیر خزانہ اسد عمر جب حزب اختلاف میں تھے تو پٹرول کو 46 روپے فی لیٹر کرنے کا مطالبہ کرتے تھے ۔ اب ان کی وہ تجاویز کہاں کھوگئی ہیں ۔سرکاری پالیسیوں سے اس وقت تو صرف اور صرف ایک ہی احساس ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ملک پر آئی ایم ایف حکمراں ہے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف ایک بینک ہے معاشی ماہر نہیں ۔ بینک صرف دو جمع دو دیکھتا ہے ۔ اس کے نزدیک اگر کسی کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں تو اسے بھوکا مر جانا چاہیے ۔ یہ معاشی ماہر ہوتا ہے جو اپنے ملک کے عوام کی فلاح کے لیے منصوبے پیش کرتا ہے جس میں ہر شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے ۔ کمزوروں کی مددکے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں ، ملک کی صنعتوں کے فروغ اور درآمدی اشیاء کے سیلاب کی روک تھام کے لیے سرکاری مدد حاضر ہوتی ہے ۔ پاکستان میں گزشتہ چالیس برسوں سے تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے ۔ حکومت کے نام پر آئی ایم ایف کے روبوٹ پاکستان میں حکومت کررہے ہیں ۔