خطِ کتاب اور خطِ اخبار سے نیچے کھڑے ہوئے معاشرے کی جھلکیاں

367

ایک ہفتے پہلے ہی ہم نے اپنے کالم میں اس بات پر گہرے دُکھ کا اِظہار کیا تھا کہ ہمارا معاشرہ ’’خطِ کتاب‘‘ سے نیچے کھڑا ہوا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’خطِ اخبار‘‘ سے بھی نیچے گر گیا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے معاشرے کی چند جھلکیاں برادرم طارق حبیب نے اپنے کالم میں پیش کرکے ہمارے اندیشے کی تصدیق کردی ہے۔ طارق حبیب نے کیا لکھا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’میکسم گورکی کی کتاب ’’ماں‘‘ میری پسندیدہ کتب میں سے ایک ہے۔ میں نے اس کتاب کی پسندیدگی کی وجہ پوچھی‘ تو جواب ملا کہ جس طرح میکسم گورکی نے ماں کی عظمت بیان کی، اس طرح کوئی اور مصنف نہیں کرسکا اور میں یہ جواب سن کر دنگ رہ گیا۔ یہ لڑکی ان امیدواروں میں سے ایک تھی، جن کا دنیا الیکشن سیل کی ٹیم تیار کرنے کے دوران مجھے انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا۔ تین سو سے زائد انٹرویوز میں کتب بینی، پسندیدہ کتاب و مصنف اور صحافت میں کیوں آنا چاہتے ہیں، جیسے چند بنیادی نوعیت کے سوالات ہر امیدوار سے پوچھے۔ اعلیٰ و مہنگے ترین تعلیمی اداروں سے آئے ان امیدواروں کے جوابات نے مجھے پریشان کردیا۔ ان امیدواران کی اکثریت کتب بینی کو وقت کا ضیاع سمجھتی تھی اور گوگل کو کتاب سے ہزار گنا بہتر بتارہی تھی۔ انہیں امیدواران سے مجھے پتا چلا کہ ابن صفی سی آئی اے کے کہنے پر جاسوسی ناول لکھتا تھا اور منٹو نے ’’را‘‘ سے پیسے لے کر مسلمان نوجوانوں کو بگاڑنے کے لیے ’’بیہودہ افسانے‘‘ لکھے: اگر قارئین مزید ’’معلومات‘‘ حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو بتاتا چلوں کہ شہاب نامہ غالبؔ نے لکھا تھا اور مختار مسعود ناکام گلوکار تھے، اس لیے منظر عام پر نہیں آسکے۔
اسی طرح گورنر اور وزیراعلیٰ میں سے وزیراعلیٰ اس لیے بڑا ہوتا ہے کہ اس کے عہدے میں ’’اعلیٰ‘‘ آتا ہے۔ القاعدہ کی قیادت ملا عمر کے پاس تھی اور تحریک طالبان پاکستان، پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت کو طول دینے کے لیے بنائی تھی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، کمپیوٹر سائنس، اپلائیڈ کیمسٹری، بائیومیڈیکل ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ایم بی بی ایس فائنل ائیر کے طالبعلم بھی امیدواران میں شامل تھے، جو صحافی بننا چاہتے تھے، پھر یہ بھی کہ امیدواران کی اکثریت اخبارات کے مطالعے، نیوز چینلز دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کرتی، مگر تمام امیدواران اینکر بننا چاہتے تھے۔ میں نے مستقبل کے ان اینکرز سے جان بوجھ کر قائداعظم اور علامہ اقبالؔ کے حوالے سے سوالات نہیں کیے کہ کہیں ایسا نہ ہو ان ہستیوں کے بارے میں بھی ایسے ’’حقائق‘‘ جاننے کو ملیں، جو اب تک تاریخ دانوں کی ’’کم علمی‘‘ کے باعث منظر عام پر نہ آسکے ہوں۔۔۔!‘‘ (روزنامہ دنیا۔ 15 جنوری 2019)
آپ نے طارق حبیب کے بیان کردہ لطائف تو سن لیے۔ اب دو لطیفے ہم سے بھی سن لیجیے۔ ہم 1990 میں جامعہ کراچی میں ایم اے کے طالب علم تھے کہ ہمارے ایک کلاس فیلو نے جامعہ کے کینٹین میں چائے پیتے ہوئے ہم سے سوال کیا یہ ’’شخصے‘‘ کس مسلک کا فلسفی تھا۔ ہم نے کہا کون ’’شخصے‘‘؟ ہمارے کلاس فیلو نے معصومیت سے فرمایا ارے بھئی تم اکثر اپنی گفتگو میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہو۔ تم اکثر کہتے ہو نہ ’’بقول شخصے‘‘۔ تو یہ ’’شخصے‘‘ کون ہے؟ یہ سن کر ہمارا ہنستے ہنستے بُرا حال ہوگیا۔ لیکن دوسرا لطیفہ اس سے بھی بڑا ہے۔ ہم نے جامعہ کراچی کی ایک طالبہ کو اپنی دوست سے یہ کہتے سنا کہ میں نیند سے بیدار ہوکر اپنے اکثر خواب بھول جاتی ہوں۔ خدا کا شکر ہے علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا مگر انہیں یہ خواب یاد رہا۔ ایسا نہ ہوتا تو شاید پاکستان وجود میں نہ آتا۔ لیکن 1990 کی دہائی میں ’’خط کتاب‘‘ اور ’’خط اخبار‘‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے والے نوجوان لاکھوں میں تھے مگر اب کروڑوں میں ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہاں نوجوانوں سے مراد وہ نوجوان نہیں ہیں جو بیچارے کبھی کالج اور یونیورسٹی کا منہ ہی نہیں دیکھتے۔ یہاں نوجوانوں سے مراد ایسے نوجوان ہیں جو کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بی اے، ایم اے کرتے ہیں۔ ایم بی اے اور ایم بی بی ایس کا پرچم ہاتھ میں لے کر گھومتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو بھی اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنے ادب کی مبادیات کا علم نہیں ہوتا۔
معاف کیجیے گا ہماری نئی نسل اگر ’’خط کتاب‘‘ اور ’’خط اخبار‘‘ سے نیچے کھڑی ہے تو اس میں نئی نسل کا کوئی قصور نہیں۔ اس کا ذمے دار پورا معاشرہ ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کو کتاب اور اخبار کے فروغ سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کتاب اور اخبار معاشرے میں علم کو فروغ دیتے ہیں اور لوگوں کے شعور کی سطح بلند کرتے ہیں۔ چناں چہ اگر معاشرے میں علم عام ہو جائے گا اور معاشرے کے شعور کی سطح بلند ہوجائے گی تو پھر کون جرنیلوں، نواز شریفوں، زرداریوں اور الطافوں اور عمران خانوں کو اپنے اوپر مسلط کرے گا؟ آپ نے یہ لطیفہ سنا ہوگا کہ ایک جاگیردار نے دوسرے جاگیردار کے علاقے میں اسکول قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تو دوسرے جاگیردار نے اعلان کیا کہ اگر تو میرے علاقے میں ایک اسکول قائم کرے گا تو میں تیرے علاقے میں دو اسکول قائم کردوں گا۔ یہاں اسکول، علم اور شعور کی علامت ہے اور جاگیردارانہ سماج کے لیے علم اور شعور ایک سازش ہے۔ آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ جاگیردارانہ ذہنیت صرف زمین سے وابستہ ہے۔ ہمارے جرنیل پورے ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور ان کی ذہنیت فوجی جاگیرداری سے اٹی پڑی ہے۔ نواز شریف اور الطاف حسین شہری وڈیرے ہیں۔ ہمارے میڈیا ٹائی کونز ابلاغی جاگیردار ہیں۔ بہت سے صحافیوں اور دانش وروں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ صحافتی اور علمی وڈیروں کے سوا کچھ نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پورا معاشرہ ہی جاگیردار بنا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ شعور اور علم ہر جگہ سازش نظر آتے ہیں۔ چناں چہ معاشرے کے تمام طبقات کی خواہش ہے کہ معاشرہ خط کتاب اور خط اخبار سے نیچے کھڑا رہے۔ معاشرہ اخبار اور کتاب بالخصوص کتاب پڑھنے لگے گا تو پھر ہمارے ’’جاگیرداروں‘‘ کو ’’ہاری‘‘ کہاں سے فراہم ہوں گے۔
وطن عزیز میں ایسے لاکھوں والدین ہیں جو اپنے بچوں کو مہنگے ترین اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں پڑھاتے ہیں مگر اسکولوں، کالجوں اور جامعات کی فیسوں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والے والدین بھی کتابوں اور اخبارات پر ہر ماہ دو ہزار روپے بھی خرچ کرنا نہیں چاہتے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ اخبار اور کتاب کا مطالعہ ان کے بچوں کی معلومات، علم اور ذہانت میں کتنا اضافہ کرسکتا ہے۔ ہم یونیورسٹی کے زمانے میں بچوں کے رسالے ماہنامہ آنکھ مچولی سے وابستہ تھے۔ ہمیں اکثر بچوں کے ایسے خط ملتے رہتے تھے جن میں بچے بتاتے تھے کہ ہمارے والدین ہم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ہمارا بڑا خیال رکھتے ہیں مگر وہ ہمیں آنکھ مچولی نہیں پڑھنے دیتے۔ بچے ہم سے کہتے تھے کہ آپ ہمارے والدین کو سمجھائیں۔ دراصل کم علمی کی وجہ سے اکثر والدین کتابوں، رسالوں اور اخبار کے مطالعے کو وقت، توانائی اور وسائل کا زیاں سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بچے رسالہ یا کتاب پڑھیں گے تو ان کی توجہ نصاب سے ہٹ جائے گی۔ بلاشبہ بچے کی توجہ نصاب سے نہیں ہٹنی چاہیے مگر صرف نصاب مرکز بن کر بچے اچھے نمبر تو لے آتے ہیں مگر ان کی متوازن ذہنی نشوونما نہیں ہوپاتی۔
ہمارے زمانے تک آتے آتے ذرائع ابلاغ نے غیر معمولی اہمیت حاصل کرلی۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ معاشرے میں جن لوگوں کو ’’ہیرو‘‘ بنا کر پیش کررہے ہیں ان میں اداکار، گلوکار، ماڈلز اور کھلاڑی وغیرہ شامل ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے نزدیک نہ کتاب لکھنے والا اہم ہے نہ کتاب پڑھنے والا۔ آپ پاکستان کے دس بڑے ٹی وی چینلز اور دس بڑے اخبارات کا جائزہ لے کر بتائیے ان میں سے کون علمی و ادبی مواد پیش کررہا ہے یا عالموں، دانش وروں، شاعروں اور ادیبوں کو ہیرو بنا کر پیش کررہا ہے؟۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے ٹیلی وژن کے ’’اینکرز‘‘ بھی ’’ہیرو‘‘ بن گئے ہیں۔ چناں چہ بہت سے نوجوان اب اینکر بننے کے خواب دیکھنے لگے ہیں مگر ذرا بتائیے تو ہمارے اینکرز میں سے کتنے لوگوں کا کوئی علمی یا ادبی تشخص ہے؟ اصل قصہ یہ ہے کہ اینکر بن کر آدمی مشہور بھی ہوجاتا ہے اور اچھے خاصے پیسے بھی کمانے لگتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اینکرز کا شعبہ بھی بنیادی طور پر شوبزنس کی توسیع ہے۔ شوبزنس کا تشخص شہرت اور پیسہ ہے۔ اکثر اینکرز کے پاس بھی شہرت اور پیسے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب ہم نے 1985 میں جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا تو اس زمانے میں پاکستان ٹیلی وژن کے کئی ڈراموں میں تواتر کے ساتھ صحافیوں کے کردار پیش کیے گئے تھے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ شعبہ صحافت میں داخلہ لینے والوں باالخصوص لینے ’’والیوں‘‘ کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ اینکرز کا قصہ یہ ہے کہ وہ صحافیوں یا کالم نویسوں سے بھی زیادہ مشہور ہوتے ہیں اور ان کی آمدنی بھی صحافیوں یا کالم نگاروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے اب ایم بی اے اور ایم بی بی ایس کرنے والے بھی اینکر بننے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس رجحان کا علم اور کتاب یا اخبار سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
جنرل ضیا الحق نے 1984 میں طلبہ یونینز پر پابندی عائد کردی تھی مگر تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیمیں موجود تھیں اور متحرک تھیں۔ چناں چہ جامعات میں مشاعرے بھی ہوتے تھے اور مباحثے بھی۔ ادبی عدالتیں بھی لگتی تھیں اور جلسے جلوس بھی ہوتے تھے۔ ان تمام سرگرمیوں کا علم و ادب کتاب اور اخبار سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور تھا۔
چناں چہ جو طلبہ ان سرگرمیوں کا حصہ ہوتے تھے ان کی علمی و ادبی، نظریاتی و سیاسی تربیت ضرور ہوتی تھی۔ مگر طلبہ یونینز پر دائمی پابندی نے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا یہ در بھی بند کردیا۔ چناں چہ اب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ابن صفی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ابن صفی سی آئی اے کے کہنے سے ناول لکھتے تھے۔ نئی نسل کے نزدیک شہاب نامہ غالب نے تحریر کیا ہے اور مختار مسعود دراصل ایک ناکام گلوکار تھے۔ نوجوانوں کے جوابات بتارہے ہیں کہ صرف یہ نوجوان ہی نہیں ان کے والدین، ان کے اساتذہ، ان کے حکمران، ان کے دانش ور، ان کے سیاست دان، ان کے میڈیا ٹائی کونز اور ان کے اینکرز بھی خط کتاب اور خط اخبار سے نیچے کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر معاشرے کو شرم ہو تو وہ چلّو بھر پانی میں ڈوب مرے۔
ہمارے حکمرانوں کو ’’ترقی‘‘ کا بڑا شوق ہے۔ ہمارے سیاست دان اور اینکرز بھی ترقی کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مادی ترقی کو معاشرے کا سب سے بڑا مثالیہ یا سب سے بڑا Ideal بنانا اسلام اور اسلامی معاشرے کے خلاف بہت ہی بڑی سازش ہے۔ اس لیے کہ اسلامی معاشرے کی اصل ترقی، روحانی اور اخلاقی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ترقی روحانی ہو یا مادی اس کی راہ کتاب اور علم ہی سے ہو کر گزرتی ہے۔ مغرب کی مادی ترقی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہے مگر اس ترقی کی پشت پر اصل طاقت ’’خیال‘‘ کی ہے اور خیال کا تصور کتاب اور علم کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اب ہمارے یہاں چین کی ’’ترقی‘‘ کا ذکر خیر بھی تواتر سے ہونے لگا ہے مگر چین کی ترقی کا ذکر خیر کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ چین نے صرف معیشت کی شرح نمو اور زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے ہی سے امریکا کو پیچھے نہیں چھوڑا بلکہ چین نے امریکا کو تحقیقی مقالوں کی تعداد کے حوالے سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہی تحقیقی اور تخلیقی مقالے چین کی ترقی کا اصل راز ہیں۔ چناں چہ اگر ہم چین کی طرح بھی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو بھی ہمیں کتاب اور علم کی روایت سے اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا۔ کتاب کے بغیر ہم امریکا اور یورپ کیا چین بھی نہیں بن پائیں گے۔ دھوبی کے کتے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گھر کا رہا تھا نہ گھاٹ کا۔ ہمارے بالائی طبقات نے ہمارے معاشرے کا بھی بُرا حال کردیا ہے۔ یہ معاشرہ نہ روحانی ترقی کررہا ہے، نہ مادی ترقی۔ اس معاشرے میں صرف جیے اسٹیبلشمنٹ، جیے نواز شریف، جیے زرداری، جیے عمران، جیے ذرائع ابلاغ اور جیے لاعلمی اور جیے بے شعوری کے نعرے گونج کر رہے ہیں۔ ہمارا اصل تشخص کیا تھا اور ہمیں کیا بنادیا گیا ہے۔ ذرا سوچیے!۔