کیا پاکستان پولیس اسٹیٹ ہے؟

173

آخرکار سندھ پولیس نے اس حقیقت کو عدالت میں تسلیم کرلیا ہے کہ نقیب اللہ قتل کیس ماورائے عدالت قتل تھا ۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پولیس کی جمع کردہ رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ اور اس کے ساتھ مارے جانے والے دیگر افراد کو کہیں اور قتل کرکے گڈاپ کے علاقے میں پولٹری فارم پر لا کر ڈالا گیا تھا ۔ اس رپورٹ کے بعد نقیب اللہ اور اس کے ہمراہ پولیس گردی کا شکار ہونے والے دیگر دو افراد کے خلاف پولیس مقابلے اور دہشت گردی وغیرہ کے مقدمات ختم کردیے گئے ہیں۔پولیس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ کو مارے جانے اور پھر اس کی لاش دوسرے مقام پر پھینکے جانے کے وقت راؤ انوار بھی موجود تھا ۔ نقیب اللہ کیس انتہائی اہم اس لحاظ سے ہے کہ اس سے بہت ساری باتیں ثابت ہوتی ہیں جن کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے مگر سرکاری طور پر کوئی اسے ماننے کو تیار نہیں ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہی ثابت ہوتی ہے کہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ دہشت گردی کے خلاف کوئی موثر اور حقیقی کارروائی کرنے کے بجائے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو اغوا کرتا ہے اور جو تاوان ادا نہ کرسکے ، ان افراد کو دہشت گرد قرار دے کر مارد یا جاتا ہے ۔ نقیب اللہ کے ساتھ جو دیگر دو افراد کو مارا گیا تھا ، ان کے گھر والے دہائیاں دے دے کر تھک گئے کہ انہیں پنجاب سے پولیس نے پورے محلے کے سامنے گرفتار کیا تھا ۔ گرفتار کرکے انہیں لاپتاقرار دے دیا گیا اور پھر کراچی میں دہشت گرد قرار دے کر مار دیا گیا ۔ اس سے لاپتاافراد کے معاملے کی گتھی کا سرا بھی ملتا ہے ۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کب سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی تحریک چلارہی ہیں مگر کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ پولیس کے ہاتھوں اغوا کیے گئے ہزاروں افراد کہاں غائب کردیے گئے ۔ یہ پولیس اور دیگر اداروں کی نااہلی ہے کہ وہ ہزاروں افراد کو صرف شک کی وجہ سے اغوا کرکے لاپتاکردے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغوا کیس معروف ہے کہ کس طرح انہیں کراچی کی پولیس نے اغوا کرکے امریکیوں کے حوالے کردیا ۔ جب سب کچھ سامنے ہے ، تو آخر راؤ انوار اور اس کے اسی طرح کے دیگر ساتھی جو معصوم لوگوں کو اغوا کرنے اور پھر تاوان وصول کرنے یا پھر انہیں جان سے مارڈالنے میں ملوث رہے ہیں ،ان کو سزا کیوں نہیں دی جاتی ۔ ان پولیس افسران کے ملک اور بیرون ملک اثاثوں کی چھان بین کیوں نہیں کی جاتی ۔ راؤ انوار اور اس کے ساتھیوں کو دیا جانے والا پروٹوکول اور ان کے اثاثوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا بتاتا ہے کہ ملک کے اصل حاکم کون ہیں ۔ سب کچھ منظر عام پر آنے اور ان خونی پولیس افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے پاکستان پولیس اسٹیٹ ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بھارت کو مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل کو فلسطین میں کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو ہم درست قرار دے رہے ہیں ۔ عدالت عظمیٰ نے کراچی میں پولیس کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’ ختم کردیں ایسی پولیس، دوسری فورس لائیں۔یہ لوگ تو بغیر کسی وجہ کے راہ چلتے آدمی کو مار دیتے ہیں، 5سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا، کارکردگی شرمناک ہے‘‘۔ لیکن کوئی دوسری فورس لائی گئی تو وہ بھی یہی کچھ کرے گی۔ عام پولیس کے ساتھ سی ٹی ڈی، ڈولفن فورس اور پتا نہیں کون کون سی فورسز لائی گئیں لیکن سب پرایک ہی رنگ چڑھا ہوا ہے۔ ساہیوال میں جو کچھ ہوا وہ راؤ انوار کی غارت گری سے کم تو نہیں ۔