گونیازی گو کے شور اور ہنگامے میں وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمنٹ کے سامنے ایون فیلڈ، سرے محل اور دبئی کی جائدادوں کے طعنے دیتے ہوئے عمران خان کے سامنے 5 ماہ میں دوسرا منی بجٹ پیش کردیا۔ جسے حکومت منی بجٹ کے بجائے اقتصادی اصلاحات کے پیکیج کا نام دے رہی ہے۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان شور و غوغے سے بچتے ہوئے ہیڈ فون لگا کر تسبیح کے دانوں کو حرکت دیتے ہوئے کبھی مسکرا کر اور کبھی کسمساتے ہوئے ایوان میں بیٹھے رہے۔ اسد عمر کی تقریر سے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے سانحہ ساہیوال کو دہراتے ہوئے اور عمران خان کو ماڈل ٹاؤن کے واقعے پر ان کی منطق کو یاد دلاتے ہوئے کہ جس طرح انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو مستعفی ہونے اور رانا ثنا اللہ کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا اسی بات کو یاد دلاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
وزیر خزانہ اسد عمر نے پاکستان کی بہتری اور مضبوطی کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر 27 رمضان کو وجود میں آیا تھا، کاروبار دوست ماحول پیدا کرنے، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے حالات سازگار بنانے اور برآمدات بڑھانے کے لیے مختلف مراعات، ٹیکسوں میں کمی اور خاتمے اور کچھ نئے ٹیکس لگانے اور عوام کے لیے ایک معمولی سا فنڈ بنانے کا اعلان کیا۔ اِن مراعات اور ٹیکسوں میں کمی کے اقدامات میں فائلر کے لیے بینکنگ ٹرانزیکشن میں ودھ ہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ، چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں 39 فی صد سے 20 فی صد تک کمی، اسٹاک مارکیٹ میں حصص کی خریداری کے دوران ٹیکس کا خاتمہ، نان بینکنگ صنعتوں کے لیے سپر ٹیکس کا خاتمہ، چھوٹی صنعتوں کے خام مال پر درآمدی ڈیوٹی میں کمی، سیونگ اسکیموں پر ٹیکس کا خاتمہ، کاروباری طبقے کے لیے انکم ٹیکس گوشواروں کی پیچیدگیوں کا خاتمہ، چھوٹے شادی ہالوں میں 20 ہزار سے ٹیکس کم کرکے 5 ہزار ٹیکس جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غریبوں کے لیے مکانات کی تعمیر کے لیے 5 ارب روپے سے قرضہ حسنہ کے فنڈ کا قیام، کاروباری حضرات کے لیے ودھ ہولڈنگ ٹیکس کا گوشوارہ (statement) بجائے ہر ماہ دینے کے سال میں دو بار جمع کرانے کا اعلان کیا۔ سستے موبائل فون پر سیلز ٹیکس 150 روپے اور مہنگے موبائل فون پر 10,300 روپے تک سیلز ٹیکس عاید کرنے کا اعلان کیا گیا۔
کاروباری لوگوں نے اس منی بجٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کاروبار میں بہتری کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے، جب کہ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ عوام پر تو حکومت بجلی، گیس اور دواؤں کی قیمتوں میں اضافے سے پہلے ہی بوجھ ڈال چکی ہے اور عوام پر مزید ٹیکس لگائے جاتے تو عوام کا غیظ و غضب حکومت کو ہلا کر رکھ دیتا۔ دوسری طرف مختلف مدوں میں ٹیکسوں کا خاتمہ یا شرح میں کمی کی گئی ہے اس سے ریونیو میں کمی ہوگی، یہ کمی کس طرح پوری ہوگی اس کا جواب حکومت نے نہیں دیا ہے۔ کیا بعد میں مزید ٹیکس لگا کر اس کمی کو پورا کیا جائے گا، جب کہ سال 2018-19 کی پہلی ششماہی میں ٹیکسوں کے حصول میں 175 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے، اس سے پہلے ہر سال بتدریج ٹیکسوں کی وصولی میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا تھا تو ایک طرف پہلی ششماہی میں ٹیکسوں میں کمی اور دوسری طرف اس منی بجٹ میں ٹیکسوں میں مراعات اس سے محاصل کی وصولی اور اخراجات کے فرق میں اضافہ ہوگا، اس کا نتیجہ مالی خسارے میں اضافے کی صورت میں نکلے گا پھر حکومت آئی ایم ایف کی طرف جانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک اہم شرط مالی خسارے میں کمی کا ہونا ہے یعنی یہ مجموعی قومی پیداواری (GDP) کا 4 فی صد ہونا چاہیے جو اس وقت 5 فی صد سے زائد ہے تو اگر آپ آئی ایم ایف کی طرف جاتے ہیں تو عوام پر مزید ٹیکس لگائے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اسی طرح ایک اور معاملہ فائلر اور نان فائلر کا بھی ہے، پہلے نان فائلر کو 50 لاکھ روپے تک کی پراپرٹی خریدنے کی اجازت دی گئی تھی، اس منی بجٹ میں 1300 سی سی تک کی گاڑیاں بھی خریدنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس پر معاشی حلقوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ حکومت نان فائلر کو سزا دینے کے بجائے اور انہیں ٹیکس کے دائرے میں لانے کے بجائے انہیں مسلسل رعایت دے رہی ہے، ویسے بھی اس وقت ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 14 لاکھ ہے اور اُن میں سے 4 لاکھ صرف گوشوارے جمع کراتے ہیں ٹیکس جمع نہیں کراتے اور حکومت جب نان فائلر کو رعایتیں دے گی تو کس طرح لوگ ٹیکس کے دائرے میں آئیں گے۔ اسد عمر کے برآمدات اور سرمایہ کاری میں اضافے کے اعلانات اپنی جگہ، کاروباری ماحول دوستانہ بنانے کے دعوے اپنی جگہ اور غریب عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کے اقدامات اپنی جگہ، پورا پاکستان اس انتظار میں ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کب نظر آتی ہے۔