پہلی بات، دوسری بات اور تیسری بات

208

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ایک فریب ہیں۔ ایک جال۔ جن سے مجاہدین کو دھوکے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں افغان مسلمانوں کی تکالیف کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں جانے والی بات ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد امریکا کی کا میابی کو ایک دوسری شکل دینا ہے۔ جو جنگ افغان مجاہدین میدان جنگ میں جیت چکے ہیں اسے مذاکرات کی میز پر شکست سے ہمکنار کرنا ہے۔ مختلف ممالک کے سربراہان جو افغان مجاہدین کو گھیر کر بار بار مذاکرات کی میز پر لارہے ہیں وہ امریکا کے ایجنٹ ہیں۔ افغان طالبان کو ان کے دھوکے سے بچنا ہوگا۔ مجاہدین کی کا میابیاں جہاد کی مر ہون منت ہیں۔ یہ جہاد ہی ہے جس نے متکبر امریکا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ جو جنگ امریکا میدان جنگ میں ہار چکا ہے مذاکرات کی میز پر جیتنا چاہتا ہے۔
امریکا کی افغانستان میں موجودگی اور افغانستان میں ایک ایجنٹ امریکی حکومت کا وجود جس طرح افغانستان کے لیے زہر قاتل ہے ویسا ہی پاکستان اور اس کے عوام کے لیے ہلاکت خیز ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت ایک تواتر سے یہ کہتی آئی ہے کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی پاکستان کے مفادات اور سیکورٹی کے لیے خطرہ ہے۔ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان میں تخریبی کاروائیوں کے لیے استعمال کررہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کے آٹھ کے لگ بھگ قونصل خانوں پر بھی حکومت پاکستان اعتراض کرتی رہی ہے۔ امریکا کے سامنے جب بھی افغانستان میں بھارت کے کردار کے حوالے سے پا کستان نے اعتراضات اٹھائے اور سیکورٹی خدشات کا اظہار کیا امریکا نے انہیں اہمیت نہیں دی۔ الٹا بھارت کی حمایت کی۔ 19اکتوبر 2017 کو امریکی سفیر نیکی ہیلی نے کہا تھا ’’امریکا کو افغانستان کو مستحکم رکھنے میں بھارت کی مدد کی ضرورت ہے اور وہ پاکستان پر نظر رکھنے میں بھی امریکا کی مدد کرسکتا ہے۔‘‘
وہ مذاکرات جو خطے میں امریکا کی موجودگی کو مستقل رکھنے کے لیے کیے جارہے ہیں کس طرح پاکستان کے مفاد میں ہوسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ امریکا نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بھارت آئندہ افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرے گا تو یہ ایک فریب اور جھوٹ ہوگا۔ ماضی میں بھی امریکا نے ایسی یقین دہانیاں کرائی تھیں اور کہا تھا کہ افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار نہیں ہوگا لیکن بعد میں امریکا نے ان وعدوں پر عمل کرنا تو ایک طرف تسلیم کرنے ہی سے انکار کردیا۔ بھارت روزانہ کنٹرول لائن پر بمباری کررہا ہے، کشمیر میں مسلمانوں کو قتل کررہا ہے اور یہ سب کچھ امریکا کی آشیر باد پر ہورہا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور خطے کے مسلمانوں کا مفاد امریکا کے مکمل انخلا میں پوشیدہ ہے۔ امریکا نے کبھی لاطینی امریکا میں جو امریکا کا ’’بیک یارڈ یعنی پچھلا صحن‘‘۔ ہے یورپ کی موجودگی کو برداشت نہیں کیا اور لاطینی امریکا کو یورپ کی موجودگی اور اثرات سے پاک کرکے دم لیا تھا۔
تیسری بات: کچھ حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ سترہ برس سے افغان مجاہدین امریکا سے جنگ کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خطے سے امریکا کو بے دخل کرنے میں ناکام ہیں۔ مستقبل میں بھی وہ امریکا کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے کیوں کہ امریکا بہت بڑی طاقت ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ امریکا سے مذاکرات کیے جائیں اور کچھ لو اور دو کی بنیاد پر مسئلے کا حل نکا لا جائے۔
اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ جب تک استعماری طاقتیں اور ان کے ایجنٹ کسی بھی خطے میں موجود رہتے ہیں وہاں نہ تو امن آتا ہے اور نہ اس خطے کو استحکام نصیب ہوتا ہے۔ امن اور استحکام کے نام پر استعماری قوتیں خطے کے معاملات میں مداخلت کرتی رہتی ہیں کیوں کہ اگر خطے میں امن اور استحکام آگیا تو استعماری طاقتوں کی خطے میں موجودگی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا کوئی بھی قانونی، سیاسی اور اخلاقی جواز جو خطے میں استعماری طاقتوں کی موجودگی کا سبب بنتا ہے اس کے بعد خطے میں امن اور استحکام نہیں آتا بلکہ خطہ مستقل طور پر بد امنی اور عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ انتہائی کوششوں کے بعد بھی اگر ہم اپنا حق مکمل طور پر حاصل کرنے میں ناکام ہیں تو بہتر یہ ہے کہ جو ملتا ہے اسی پر اکتفا کیا جائے وہی لے لیا جائے۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ یہ سمجھنا کہ اگر امریکا کے چھ کے بجائے دو اڈے ہوں گے تو اس کی طاقت میں کمی واقع ہوجائے گی اور کچھ عرصے کے بعد وہ باقی دو بھی چھوڑ دے گا غلط ہی نہیں بالکل غلط ہے۔ آج امریکا کے افغانستان میں چھ فوجی اڈے ہیں تو اس کی حیثیت قابض فوج کی ہے۔ ان اڈوں پر حملہ اور امریکا کو خطے سے نکالنے کی جدوجہد کرنا ایک جائز جدو جہد ہے۔ لیکن کسی سیاسی معاہدے کے نتیجے میں امریکا کو اگر دو اڈے رکھنے کی اجازت مل جاتی ہے تو پھر وہ اڈے قابض فوج کے اڈے تصور نہیں ہوں گے۔ ان پر حملہ غیر قانونی اور ناجائز تصور کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں امریکا کے لیے مزاحمت کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا اور وہ بلا مزاحمت اپنے منصوبوں کو بروئے کار لاسکے گا جو یقیناًمسلمانوں کے لیے تباہ کن ہوں گے۔
اسلام مسلمانوں کو کسی بھی صورت حق سے دستبر دار ہونے کی اجازت نہیں دیتا چاہے اس کے لیے کتنی ہی تکالیف برداشت کی جائیں اور کتنے عرصے برداشت کی جائیں۔ آقا عالی مرتبت ؐ کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے کہ ایک صحابی نے آکر کہا ’’آپ اللہ سے مدد کیوں نہیں مانگتے‘‘۔ آپؐ کا چہرہ انور سرخ ہوگیا اور فرمایا ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ انہیں آروں سے چیر دیا گیا لیکن انہوں نے صبر کیا‘‘۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہوکہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں) میں ہلا ہلا دیے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب اللہ کی مدد آئے گی۔ دیکھو اللہ کی مدد عن قریب (آیا چاہتی) ہے‘‘۔ (البقرہ: 214)
ایک اور جگہ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے: ’’تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں) کو صلح کی طرف نہ بلاؤ جب کہ تم غالب ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے وہ ہر گز تمہارے اعمال کو کم (اور گم) نہیں کرے گا‘‘۔ (محمد35: 47)
مسلمان مشکل سے مشکل صورتحال میں حق سے دستبردار نہیں ہوئے خواہ کتنے ہی برس گزر گئے انہوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ بیت المقدس 1099ء میں صلیبیوں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ 1187ء تک مسلمان اسے آزاد کرانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ بالآخر 88برس بعد مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔ فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو 70 برس سے زائد ہوچکے ہیں لیکن مسلمان تمام تر ناکامیوں اور مشکلات کے باوجود اسرائیل سے برسر پیکار ہیں۔ اسی طرح کشمیر پر بھی بھارتی قبضے کو 70 برس گزر چکے ہیں لیکن اہل کشمیر ہر روز قر بانیوں کی عظیم تاریخ رقم کررہے ہیں۔ افغانستان کے مسلمانوں کو ان کے مقابلے میں تقریباً چالیس برس گزرے ہیں۔ اس عرصے میں ان کی مزاحمت کے نتیجے میں سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ امریکا افغانستان میں ایک شکست خوردہ فوج ہے۔ افغانستان کے مسلمان اگر تکلیف میں ہیں تو ان کے دشمن بھی تکلیف میں ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے: ’’اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا، اگر تم بے آرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بے آرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں اور تم اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے‘‘۔ (النساء: 104)