مولانا مودودیؒ کا اسلوب

391

والٹ وِٹ مین کا مشہورِ زمانہ فقرہ ہے۔ style is the man۔ یعنی اسلوب ہی انسان ہے۔ یا انداز ہی آدمی ہے۔ اسلوب کا ذکر ہو اور میر تقی میر آپ کو یاد نہ آئیں‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ میر نے کہا ہے
میر شاعر بھی زور تھا کوئی
دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب
کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایسے طبیب ہوا کرتے تھے جو مریض کی نبض دیکھ کر بیماری ہی نہیں یہ بھی بتادیتے تھے کہ اس نے آج مونگ کی دال کھائی ہے یا چنے کی دال پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ اسلوب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ لکھنے والے کا اسلوب اس کے بارے میں سب کچھ بتادیتا ہے۔ مولانا مودودیؒ صرف مفکرِ اسلام ہی نہیں ہیں بلکہ وہ 20 ویں صدی کے چند بڑے صاحب طرز اور صاحب اسلوب لوگوں میں سے ایک ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلوب کا تعین کن چیزوں سے ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک درجن سے زیادہ باتیں کہی جاسکتی ہیں مگر اسلوب کی تخلیق یا اسلوب کے تعین کے حوالے سے پانچ عناصر کی اہمیت بنیادی ہے۔
(1) موضوع
(2) تفہیم
(3) لکھنے والے کا تصورِ ذات
(4) لکھنے والے کا تصورِ قاری
(5) اسلوب کی تاثیر
اسلوب کے سلسلے میں موضوع کی اہمیت یہ ہے کہ جیسا موضوع ہوتا ہے ویسا ہی اسلوب ہوتا ہے۔ موضوع سرسری اور سطحی ہو تو اسلوب بھی سرسری اور سطحی ہوجائے گا۔ موضوع گہرا ہو تو اسلوب پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ مثلاً کسی سیاست دان کے بیان پر لکھی گئی تحریر اتھلی ہی ہوگی اس لیے کہ سیاست دانوں کے بیانات میں کوئی گہری بات نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کوئی شخص فلسفے کے موضوع پر کلام کرنے لگے تو اس کی تحریر میں فلسفیانہ الفاظ، فلسفیانہ اصطلاحیں ضرور آئیں گی اور تحریر کے اسلوب کو فلسفیانہ بنادیں گی۔ مولانا کا موضوع اسلام ہے، قرآن ہے، سیرت طیبہ ہے، علم حدیث ہے، اسلامی تہذیب ہے، اسلامی تاریخ ہے۔ ان تمام موضوعات میں ایک عظمت ہے، ایک تقدیس ہے، ایک وقار ہے۔ مولانا کے اسلوب پر بھی
مذہب کی عظمت، مذہب کی تقدیس اور مذہب کے وقار کا سایہ ہے۔ آپ کہیں گے یہ خوبی تو مذہب پر کلام کرنے والے ہر شخص کی تحریر میں ہوگی لیکن ایسا نہیں ہے۔ مذہب پر کلام کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے مذہب صرف ایک خارجی حقیقت اور ایک علمی موضوع ہوتا ہے مگر مولانا کے لیے مذہب ایک وجودی یا Existential مسئلہ ہے۔ مولانا مذہب کے بغیر ایک لمحہ گزارنے کا بھی تصور نہیں کرسکتے۔ مذہب کے وجودی مسئلہ ہونے سے مولانا کے اسلوب میں ایک شیفتگی اور ایک والہانہ پن پیدا ہو گیا ہے۔ یہ والہانہ پن اتنا ہی فطری ہے جتنا دریا کا بہاؤ فطری محسوس ہوتا ہے۔ جتنا زمین سے اُگا ہوا ایک پودا فطری محسوس ہوتا ہے، اس کے ایک معنی یہ ہوئے کہ مولانا کے یہاں صناعی یا Craft کا عنصر بھی بس اتنا ہی ہے جتنا نثر لکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مذہب مولانا کا وجودی مسئلہ نہ ہوتا تو مولانا کے اسلوب میں برجستگی نہ ہوتی۔ بلاشبہ مولانا کا تعلق تعقّل کی روایت سے بھی ہے مگر تعقل کا عنصر مولانا کو دلائل مہیا کرتا ہے مگر دلائل کے بیان یا اسلوب پر جذبے کا غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی تحریر صرف ذہن ہی کو متاثر نہیں کرتی بلکہ وہ دل پر بھی اثر کرتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مولانا لاکھوں لوگوں کی زندگیاں نہیں بدل سکتے تھے۔
دنیا میں لکھنے والوں کی کئی اقسام ہیں۔ بعض لکھنے والے صرف اپنی معلومات لکھتے رہتے ہیں، وہ کبھی اپنی معلومات کو ’’علم‘‘ نہیں بنا پاتے۔ اسی طرح کچھ لوگ ساری زندگی اپنا ’’مطالعہ‘‘ یا اپنا ’’علم‘‘ لکھتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تفہیم یا Understanding لکھتے ہیں۔ مولانا ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ہماری تہذیبی اور علمی روایت کو ایک مخصوص زاویے سے دیکھا اور بیان کیا گیا ہے۔ ایک چیز علم الیقین ہے۔ ایک شے عین الیقین ہے اور ایک معاملہ حق الیقین کا ہے۔ علم الیقین یہ ہے کہ آپ کو بتایا گیا ہے کہ یہ جو آپ کے سامنے گھڑا رکھا ہوا ہے اس میں پانی ہے۔ عین الیقین یہ ہے کہ آپ نے گھڑے پر رکھے ہوئے کٹورے کو ہٹا کر دیکھ لیا کہ گھڑے میں واقعتاً پانی ہے۔ حق الیقین یہ ہے کہ آپ نے گھڑے سے ایک گلاس پانی نکال کر اسے پی لیا۔ مولانا کی تحریر اور اسلوب میں علم الیقین کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور مولانا کے متن اور اسلوب میں عین الیقین کے پھول بھی کھلے دکھائی دیتے ہیں مگر مولانا کے متن اور اسلوب پر سب سے زیادہ اثر حق الیقین کا ہے۔ آپ مولانا سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں مولانا کی فلاں بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مولانا کا شعور ابہام سے آگاہ ہی نہیں۔ مولانا کا شعور ہر جگہ تفہیم کا مکمل دائرہ بناتا ہے۔ مولانا کی تفہیم کہیں چھوٹا دائرہ تو بنا سکتی ہے مگر اُسے نامکمل دائرہ بنانے کی عادت نہیں۔ مولانا کے جیسی تفہیم اردو ادب میں تین ہی لوگ کے یہاں نظر آتی ہے یعنی قرۃ العین حیدر کے یہاں، محمد حسن عسکری کے یہاں اور سلیم احمد کے یہاں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسی تفہیم نے ان چاروں شخصیات کے اسلوب کو بھی گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔
لکھنے والوں کو معلوم ہو یا نہ ہو مگر ہر لکھنے والے کا ایک تصورِ ذات یا concept of self ہوتا ہے۔ تصور ذات لکھنے والے کے اسلوب کو براہ راست طور پر متاثر کرتا ہے۔ بعض لوگ اپنے آپ کو شعوری یا لاشعوری طور پر عالم سمجھتے ہیں۔ ’’دانش ور‘‘ سمجھتے ہیں ’’اسکالر‘‘ خیال کرتے ہیں۔ چناں چہ ان کا اسلوب اچھے یا بُرے معنوں میں عالمانہ ہوجاتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد بہت بڑی شخصیت ہیں مگر ان کا اسلوب بتاتا ہے کہ وہ خود کو عالم سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی انہیں عالم تسلیم کریں۔ ایسا نہ ہوتا تو شاید مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوب اتنا ’’معرّب‘‘ یا ’’مفرّس‘‘ نہ ہوتا۔ بیچارے غالب کو بھی عالم کہلانے کا شوق تھا۔ غالب کی ’’جناتی زبان‘‘ کا کافی حصہ یہیں سے فراہم ہوا ہے۔ اردو کے جواں مرگ نقاد اور سلیم احمد کے شاگرد رشید سراج منیر سے ایک بار معروف نقاد اور شاعر جمال پانی پتی نے پوچھا سراج تم اتنی مشکل اور پیچیدہ زبان کیوں لکھتے ہو؟۔ کہنے لگے کہ جمال بھائی لاہور میں ہمیں کوئی ہماری کم عمری کی وجہ سے مانتا ہی نہیں تھا چناں چہ ہم نے شعوری طور پر اسلوب کو عالمانہ بنا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کو فتح کرلیا۔ سراج منیر کی یہ بات بالکل درست تھی۔ یعنی لاہور کو فتح کرنے والی بات مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جو اسلوب انہوں نے دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے وضع کیا تھا وہ ان کا زندان بن کر رہ گیا۔ اس زندان سے سراج منیر کو کبھی رہائی نہ مل سکی۔ بلاشبہ مولانا مودودیؒ بڑے عالم تھے مگر انہیں کسی کو مرعوب کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کا تصورِ ذات ایک مبلغ کا تصور ذات تھا اور مبلغ کے لیے اپنی شخصیت اہم نہیں ہوتی۔ اس کے لیے صرف ’’صداقت‘‘ اور اس کا ’’ابلاغ‘‘ اہم ہوتا ہے۔ مبلغ متاثر تو کرتا ہے مرعوب نہیں کرتا۔ وہ انسانوں کو چھوٹے پن کے احساس سے دوچار نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے مواد اور اسلوب سے چھوٹے لوگوں کو بڑا بننے کے لیے اُکساتا ہے۔ مولانا کی تحریر میں مولانا کا علم موضوع یا گفتگو کے تقاضے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس کی پشت پر خود پسندی، خود نمائی یا مقابلے اور مسابقے کی نفسیات موجود نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کا اسلوب ان کے قاری میں مولانا کی محبت زیادہ پیدا کرتا ہے اور مرعوبیت بہت کم پیدا کرتا ہے۔
چوں کہ مولانا خود کو صرف مبلغ سمجھتے ہیں اس لیے انہوں نے اپنی زبان کو ’’وضع‘‘ کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی بلکہ جو زبان انہیں ان کے ماحول اور مطالعے سے فطری طور پر فراہم ہوئی تھی مولانا نے اسی زبان کو ابلاغ کے لیے استعمال کیا۔لکھنے والوں کی اکثریت کو معلوم نہیں ہوتا مگر لکھنے والے کا ایک ’’تصورِ قاری‘‘ بھی ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ مثلاً امام غزالی اور شیخ محی الدین ابن عربی بنیادی طور پر عالموں کے عالم تھے۔ امام ربانی مجدد الف ثانی کے بعض مکتوبات میں الٰہیات کا بیان عام لوگوں کے لیے ہے ہی نہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی کچھ کتب ’’ماہرین‘‘ ہی کے لیے ہیں۔ بلاشبہ مولانا کے علم سے عالموں نے بھی استفادہ کیا ہے اور کرتے رہیں گے مگر اپنی اصل میں مولانا عالموں کے عالم نہیں ہیں۔ وہ اپنی اصل میں پڑھے لکھے متوسط طبقے کے لوگوں کے عالم ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے قاری کی علمی سطح کیا ہے۔ اس کی لسانی استعداد کیا ہے؟ وہ آگاہ تھے کہ ان کے قارئین کو درپیش فکری مسائل کی نوعیت کیا ہے اور ان میں کس طرح کے علم کی پیاس ہے۔ ان تمام حقائق کا مولانا کی نثر، مولانا کے اسلوب اور مولانا کے دلائل و براہین پر گہرا اثر ہے۔ مولانا کے اسلوب پر ان کے زمانے اور ان کے پیشتے کا بھی اثر ہے۔ مولانا کا عہد جمہوری اور عوامی عہد ہے۔ عوامی عہد میں عوام کی سطح معیار بن گئی۔ مولانا کی عالمانہ زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ صحافت مولانا مودودیؒ کی ہو تو اس میں میر کے اس شعر کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
شعر میر ے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
یہاں ہمیں ابلاغیات کے ماہر و لبرشریم کی بات یاد آئی۔ اس نے کہا ہے ’’Medium is the message‘‘۔ یعنی ذریعہ ہی پیغام ہے۔ کتاب کی زبان، اخبار کی زبان اور ٹیلی وژن۔ زبان کے فقروں میں لفظ زبان کے سوا کچھ بھی مشترک نہیں۔ یعنی کتاب کی زبان، اخبار کی زبان اور ٹیلی وژن کی زبان میں ایک فرق ہے۔ مولانا عالم تھے اور انہیں بات تو عالمانہ ہی کرنی تھی مگر ان کی تربیت صحافت کے وسیلے سے ہوئی۔ چناں چہ ان کے اسلوب میں عالم کی شان بھی ہے اور صحافت کی سلاست اور روانی بھی ہے۔ یعنی مولانا کے اسلوب میں حسن کی سادگی بھی ہے اور سادگی کا حُسن بھی۔
مولانا کے مواد اور اسلوب میں غیر معمولی تاثیر ہے۔ بلاشبہ اس تاثیر کا تعلق مولانا کے علم اور فہم سے بھی ہے مگر مولانا کے پاس علم اور فہم سے بھی بڑی چیزیں تھیں۔ مولانا ان لکھنے والوں میں سے نہیں تھے جو خیال کو بیان تو کرتے ہیں مگر خیال کو بسر نہیں کرتے۔ مولانا صرف اسلام کو بیان کرنے والے نہیں تھے بلکہ وہ اسلام کو بسر کرنے والے بھی تھے۔ لفظ میں تاثیر خیال کو بسر کرنے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر مولانا کے پاس اخلاص کا خزانہ بھی تھا۔ چناں چہ مولانا کے اسلوب کی تاثیر میں مولانا کے اخلاص کا بھی حصہ ہے۔ اللہ نے مولانا کو ایک اور چیز عطا کی تھی ’’انکسار‘‘۔ مولانا کے انکسار نے مولانا کے اسلوب کی تاثیر کے دائرے کو مکمل کرکے اسے چودھویں کا چاند بنادیا۔