پاکستان اسٹیل کی تباہی کا سبب

183

حکومت آخر پاکستان کے اثاثوں کے ساتھ کرنا کیا چاہتی ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو بار بار کیے جانے کے باوجود ابھی تک جواب طلب ہے ۔ پاکستان کے اثاثوں کے ساتھ موجودہ حکومت بھی وہی کھیل کررہی ہے جو گزشتہ 20 برسوں سے دیگر حکومتیں کرتی رہی ہیں ۔ پاکستان اسٹیل مل ایک ٹیسٹ کیس ہے جس کے ساتھ حکومت وہی سلوک کررہی ہے جس طرح ملک دشمن چاہتے ہیں ۔ اسٹیل مل پاکستان کی چند کامیاب کہانیوں میں سے ایک ہے جسے زبردستی تباہی کی داستان میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ بلا کسی وجہ کے بار بار درامدی اسٹیل کی ڈیوٹیوں کو اتنا کم کر دیا کہ پاکستان اسٹیل کی مصنوعات مارکیٹ میں مقابلے کی سکت نہیں رہی ۔ یہ بھی تاریخ میں درج ہے کہ پاکستان اسٹیل کو محض 30 ارب روپے کا قرض فراہم نہیں کیا گیا ، ایک سرکاری ادارے سوئی سدرن گیس نے راتوں رات پاکستان اسٹیل کی گیس منقطع کردی مگر پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو بٹھا کر سیکڑوں ارب روپے کی تنخواہیں ادا کردی گئیں ۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان اسٹیل کو اس کے پاؤں پر کھڑا کریں گے مگر وہ یہ بات نہیں بتا رہے کہ کیا پاکستان اسٹیل کو تعویذ گنڈوں کی مدد سے پاؤں پر کھڑا کریں گے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک حکومت پاکستان اسٹیل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو ہی نہیں کرسکی ہے ۔ پاکستان اسٹیل مل کا انتظامی ڈھانچہ تباہ ہے ، چیف ایگزیکٹو آفیسر، ڈائریکٹر، جنرل منیجر سب قائم مقام ہیں اور انتہائی جونیئر افسران متعین ہیں ۔مل کو یومیہ 12 کروڑ روپے خسارہ اور قرض میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔حکومت نے گزشتہ حکومت کی کرپشن کے احتساب کا وعدہ کیا تھا ۔ اگست 2018 تک مل کا خسارہ اور قرضہ 460 ارب روپے مالیت کا تھا ۔ اس کا احتساب تو نہیں ہوا البتہ نئی حکومت کے دور میں گزشتہ پانچ ماہ میں قرضے اور خسارے میں 18 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے ۔مل کی بحالی کے لیے حبکو کو مشیر مقرر کیا گیا ہے جس کا اسٹیل انڈسٹری کا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔حبکو نے ٹیکنیکل کمیٹی میں ایکسپرٹ کے نام پر جن کی خدمات حاصل کی ہیں، یہ وہی عناصر ہیں جو پاکستان اسٹیل کی نجکاری کی سازش میں ملوث رہے ہیں ۔پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ میں جنرل منیجروں کی سطح سے لے کر انتظامی ڈائریکٹروں تک کوئی بھی مستقل تعیناتی نہیں ہے ۔ پاکستان بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان میں سے ایک بھی میٹلرجی کا ماہر نہیں ہے ۔اب عمران خان ہی بتائیں کہ ان کی کرکٹ ٹیم میں ایک بھی کرکٹر نہ ہو تو وہ کس طرح مخالف ٹیم کا مقابلہ کرپائیں گے ۔ مگر اسد عمر اور خود عمران خان بھی یہی کچھ پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کے ساتھ کررہے ہیں ۔ جب کسی جہاز کا کپتان ہی تربیت یافتہ نہ ہو تو اسے کس طرح کریش ہونے سے روکا جاسکتا ہے ۔ پی آئی اے میں بھی باہر سے غیر تربیت یافتہ افراد کو تعینات کیا جارہا ہے اور پھر کہا جائے گا کہ یہ ادارے ناکام ہوگئے ۔ بہتر ہوگا کہ ہر ادارے میں متعلقہ پیشے سے وابستہ اور تربیت یافتہ ماہر افراد کو تعینات کیا جائے ۔ یہ ادارے ہی پاکستان کی بقاء ہیں ۔ اگر یہ ادارے چل رہے ہوتے تو آج پاکستان کا یہ معاشی حال نہیں ہوتا ۔ کوئی ادارہ آمدنی کا ذریعہ بنے گا تو ملک ملک بھیک مانگنے سے نجات ملے گی ۔