!عدالت عظمٰی اور مفاد پرست منتخب نمائندے

134

سندھ حکومت نہیں بلکہ صوبے پر مسلط پیپلز پارٹی کی حکومت ان دنوں کرپشن اور اپنے ذاتی مفادات پر ضرب لگتا دیکھ کر جس قدر پریشان ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عدالت عظمٰی کا یہ احسان ہے کہ وہ لاقانونیت کے سدباب کے لیے غیر معمولی سرگرم ہے۔ خصوصاً چالیس سال پہلے والے کراچی کو اس کے لے آوٹ پلان ، ماسٹر پلان اور نقشوں کے مطابق بحال کرنے کے لیے عدالت کی کارروائیاں قابل تعریف ہیں۔ مفاد پرست سیاست دان اور عوامی نمائندے عدالت کی اس کارروائی سے خوش ہونے اور ان کی حمایت کرنے کے بجائے مخالفت کریں تو یہ باعث حیرت اور تشویش بھی ہے۔ واضح رہے کہ خلاف ضابطہ اور خلاف قانون بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے کراچی شہر بے پناہ مشکلات کا شکار ہوچکا ہے۔ انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے جس کے بعد اسے عارضی مینٹیننس کرکے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شاہراہ فیصل سمیت دیگر اہم اور بڑی سڑکوں کو کمرشل کرکے یہاں پر برساتی نالوں کے اوپر یا قریب بڑی بڑی تجارتی عمارتیں تعمیر کردی گئیں۔ جس کی وجہ سے اب کراچی میں اسٹورم واٹر ڈرینج سسٹم نامی کوئی نظام ہی باقی نہیں رہا۔ اس طرح شاید یہی شہر دنیا کا واحد بڑا شہر ہے جہاں برساتی پانی کے نکاسی کا کوئی علیحدہ نظام ہی نہیں ہے۔ برساتی پانی سیوریج سسٹم میں مل کر سمندر میں چلا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلند اور غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے شہر میں پانی اور سیوریج کی لائنوں میں بھی روز بروز دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ کھیل کے میدانوں اور پارکوں سمیت دیگر رفاہی پلاٹوں پر تجارتی اور رہائشی عمارتیں بناکر بچے کھچے بنیادی ضروریات کے نظام پر کاری ضرب لگائی گئی۔
عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے اگرچہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خاں کی درخواست پر رفاہی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے کارروائی شروع کی تھی لیکن اس مقدمے کی سماعت کے دوران جب یہ انکشاف ہوا کہ غیر قانونی اور خلاف ضابطہ عمارتوں کی تعمیرات نے شہر کے نظام ہی کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے تو پھر بات پورے شہر کے بنیادی ماسٹر پلان تک جا پہنچی۔ جب ایسا ہوا تو پہلے کراچی کے میئر وسیم اختر نے زبان کھولی کہ ’’وہ کسی صورت میں آباد رہائشی عمارتوں کو نہیں توڑیں گے چاہیے انہیں مستعفی ہونا پڑے‘‘۔ جب بات رہائشی پلاٹوں پر تجارتی تعمیرات تک پہنچی تو سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی بھی ایسا ہی کچھ بول پڑے۔ وزیربلدیات سندھ سعیدغنی نے کہا ہے کہ ’’ہم عدالت عظمیٰ سمیت تمام عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے کے پابند ہیں لیکن اگر عدلیہ شہر میں رہائشی عمارتوں کو توڑنے کے احکامات دے اور ان لاکھوں مکینوں کو بے گھر کرنے کے احکامات دے تو میں بحیثیت وزیر بلدیات اپنے عہدے سے استعفا تو دے سکتا ہوں لیکن یہ کام نہیں کرسکتا‘‘۔ میں پوری ذمے داری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ صوبائی وزیر اور میئر دونوں اپنے عہدوں سے کبھی بھی مستعفی نہیں ہوں گے۔ یہ باتیں وقتی اور سیاسی ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔ سعید غنی نے عدالت عظمٰی کے احکامات کے حوالے سے مزید کہا کہ 2001 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے بعد اختیارات سٹی کونسل کے پاس تھے اور 2003 میں سٹی کونسل نے قرارداد کو منظور کرکے 26 اہم شاہراہوں کو کمرشلائز کرنے کی اجازت دی جس کو اس وقت عدلیہ میں چیلنج بھی کیا گیا لیکن عدلیہ نے سٹی کونسل کے حق میں فیصلہ دیا اور آج عدلیہ اسی فیصلے کی روح سے کمرشل ہونے والی عمارتوں کو توڑنے کے احکامات دے رہی ہے۔ سعید غنی صاحب شاید یہ بھول رہیں ہیں کہ سٹی گورنمنٹ نے سڑکوں کو کمرشل قرار دیا تھا ان کے اطراف موجودہ پلاٹوں اور عمارتوں کو تجارتی نہیں قرار دیا اور نہ ہی یہاں موجودہ رہائشی پلاٹوں کی حیثیت تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن سڑکیں کمرشل کرنے کی اجازت سے فٹ پاتھوں اور ان سڑکوں کے قریب سے گزرنے والے برساتی نالوں پر بھی تجارتی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت موجودہ وزیر بلدیات اور میئر جیسے عوامی نمائندوں نے دباؤ ڈال کر دلوادی جس کے نتیجے میں شہر کا پورا نظام ہی خراب ہوگیا۔
سعید غنی اور وسیم اختر جیسے لوگوں کو عام لوگوں کی اگر کوئی فکر ہوتی تو وہ کبھی بھی خلاف قانون تعمیرات کی حمایت نہیں کرتے بلکہ ایسی تعمیرات کے دوران سخت مزاحمت کرتے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اس عمل میں بھی ان کا مفاد تھا۔ آج خدانخواستہ کوئی خلاف قانون اور نالوں پر بنی عمارتیں خود بخود گر جائیں تو کیا وسیم اختر اور سعید غنی ان عمارتوں کی تعمیرات کی ذمے داری قبول کریں گے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں واٹر بورڈ کی بڑی کنڈیوٹ پر بھی رہائشی و تجارتی پروجیکٹ بن چکے ہیں۔ سیوریج لائنیں پر بھی بے تحاشا عمارتیں قائم ہیں جو زہریلی گیس کی وجہ سے کسی بھی وقت خطرناک سانحہ کا سبب بن سکتی ہیں برنس روڈ کے قریب پرانا اردو بازار اور ناظم آباد میں نیا اردو بازار، سندھ سیکرٹریٹ، صوبائی محتسب کا دفتر سمیت اہم دفاتر اور بازار بھی نالے پر ہی تعمیر ہیں۔ کسی نے اگر ان پر آج تک توجہ نہیں دی تو کیا آئندہ بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ منتخب نمائندے تو گورنر ہاؤس کے برابر جناح گراؤنڈ سابقہ پولو گراؤنڈ کا زیر زمین حصہ مقامی ہوٹل کو اس کی پارکنگ کے لیے مختص کرکے اب ’’پاک سر زمین‘‘ کی باتیں کررہے ہیں۔ عدلیہ نے کراچی کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے تو یہ کراچی پر بڑا احسان ہے۔ عدالت عظمیٰ کو چاہیے کہ شہر کی اہم عمارتوں کو غیر متعلقہ اداروں سے خالی کراکر انہیں ان کی اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دے۔ جس طرح سرکاری زمینوں پر شادی لانز اور دیگر تجارتی استعمال کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔