کراچی میں ابلتے گٹر اور ٹوٹی سڑکیں

187
کراچی میں ایک مرتبہ پھر پراسرار طریقے سے گٹر ابلنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ اندرونی سڑکوں اور گلیوں کا حال تو ویسے ہی ابتر ہے مگر مین شاہراہوں پر جگہ جگہ ابلتے گٹر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ گٹر کے پانی کی وجہ سے سب سے پہلے تو سڑکیں ہی خراب ہوتی ہیں اور ان میں گہرے گڑھے پڑ جاتے ہیں جو ٹریفک حادثات کا سبب بنتے ہیں ۔ خصوصا موٹر سائیکل سوار اس کی وجہ سے مشکل میں رہتے ہیں اور اکثر شدید زخمی بھی ہوجاتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر بھر کے گٹر ایک ساتھ خراب کرکے کوئی یہ پیغام دیتا ہے کہ اب بھی سارے معاملات ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر شور کے بعد ان گٹروں کی تو صفائی کردی جاتی ہے اورکئی دن بعد یہ سڑکیں خشک بھی ہوجاتی ہیں مگر اس کے بعد ایک نیا مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے جس پر کوئی غور نہیں کرتا ۔ گٹر کے پانی سے بننے والی کیچڑ جب گاڑیوں کے ٹائر کے ساتھ اڑ کر فضا میں شامل ہوتی ہے تو پھر شہریوں کی سانسوں کے ساتھ ان کے جسم میں داخل ہو کر ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنتی ہے ۔ کسی شہری کو عام دنوں میں کہا جائے کہ وہ گٹر کی کیچڑ کو زبان پر رکھ لے تو وہ لڑنے مرنے کو تیار ہوجائے گا ۔ مگر یہی کیچڑ گرد کی صورت میں اڑ کر ناک اور منہ کے ذریعے جسم کے اندر داخل ہوجاتی ہے ۔ بالوں اور چہرے پر جم جاتی ہے ۔ اس خوفناک گرد سے آنکھوں اور ناک کی بیماریاں تو فوری طور پر شہریوں کو اپنی زد میں لے لیتی ہیں ۔ اس کے علاوہ نظام تنفس اور پھیپھڑوں کو متاثر کرکے نزلہ ، زکام اور بخار کا بھی باعث بنتی ہیں ۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف بلدیاتی اداروں کی نااہلی کے سبب ہوتا ہے ۔ بلدیاتی ادارے اگر سیوریج کے نظام کو درست رکھیں اور گٹر ابلنے کی صورت میں کیچڑ کو بھی صاف کرنے کا بندوبست کردیں تو شہری اس عذاب سے بچ سکتے ہیں ۔ جسارت کی ایک خبر کے مطابق شہر میں ہونے والی حالیہ بارشوں کے بعد سانس اور گلے کی بیماریوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوگیا ہے ۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی موجود ہے ۔ ایسے میں ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل نہ ہونے ، بے ہنگم طریقے سے ترقیاتی کام کروائے جانے اور غیر محفوظ طریقہ کار نے سانس کے مریضوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے بلکہ روزانہ ان کی تعداد میں زبردست اضافہ تشویشناک ہے ۔ مچھروں اور مکھیوں کو بھی مارنے کا شہر میں کوئی بندوبست نہیں ہے جس کی وجہ سے ملیریا اور دیگر بیماریوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ۔ آخر یہ بلدیاتی ادارے شہر میں صفائی جیسی بنیادی ذمہ داریوں کو کیوں ادا نہیں کررہے ہیں ۔ اس کے لیے کون سے اختیارات کی ضرورت ہے ۔بھرتی شدہ خاکروب کہاں گئے ۔ اس کے لیے تو کوئی بھاری مشینری نہیں چاہیے بس پہلے سے بھرتی شدہ خاکروبوں سے کام لینا ہے اور جھاڑو درکار ہے ۔ میئر اور ان کے دیگر رفقاء کے پاس شہر میں آپریشن توڑ پھوڑ کے لیے تو بھاری مشینیں اور فنڈز موجود ہیں مگر ملبہ اٹھانے کے لیے موجود ڈمپر زیر استعمال کیوں نہیں ۔ بہتر ہے کہ میئر کراچی اپنی بلدیاتی ٹیم کے ساتھ ساتھ ضلعوں کی بلدیاتی ٹیم کو متحرک کریں اور شہر کی اہم شاہراہوں کے ساتھ گلی محلوں کی صفائی کو بھی یقینی بنائیں ۔ شہرسے کچرا اٹھانے کو یقینی بنائیں اور بروقت اسپرے کروائیں تاکہ مکھی اور مچھروں کی وبا سے شہری چھٹکارا پاسکیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پورا شہر گڑھوں سے بھرا پڑا ہے۔ سڑک پر پانی کی لائن کے لیے کھدائی ہو یا سیوریج کے لیے اس کی مرمت نہیں کی جاتی۔ جبکہ قانون یہ ہے کہ روڈ کٹنگ چالان جمع کرائے بغیر کوئی سڑک کاٹی نہیں جاسکتی۔ یا تو یہ رقم جمع نہیں کرائی جاتی اور سڑک کھود دی جاتی ہے یا جمع کرائی جاتی ہے تو بلڈنگ اینڈ روڈز (بی اینڈ آر) کا محکمہ یہ رقم کھا جاتا ہے۔ چھوٹی سی سڑک سے شاہراہوں تک سب کا یہی حال ہے۔