افغان امن عمل ۔ امکانات اور خدشات

191

امریکا اور طالبان جنگ ختم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ امریکا نے اب طالبان کے ساتھ مذاکرات میں با قاعدہ اظہار کر دیا ہے کہ وہ افغانستان سے جارہا ہے ۔ 18ماہ میں غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جانے کی خبر دی گئی ہے اور طالبان نے یقین دلایا ہے کہ داعش یا القاعدہ کو افغان سر زمین استعمال نہیں کرنے دیں گے جو کچھ بھی طے ہونے جا رہا ہے ابھی بہت سے امکانات اور خطرات کے درمیان ہے ۔ امریکا نے بھی جنگ بندی کے بعد طالبان رہنماؤں کے خلاف سفری پابندی ختم کرنے اور عبوری حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے ۔ قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا ہے ۔ اس سارے عمل میں اصل خبر یہ ہے کہ ابھی کچھ بھی حتمی نہیں ہے ۔ خود طالبان کمانڈر نے اور امریکی نمائندے نے یہی کہا ہے ۔ طالبان کمانڈر نے کہا ہے کہ پیش رفت ہوئی ہے، تنازعات کے حل کے لیے راستہ تلاش کیا جا رہا ہے امریکی نمائندے نے کہا ہے کہ تمام امور پر اتفاق رائے تک کچھ بھی حتمی نہیں ہو گا ۔ اس وقت حتمی صرف یہ ہے کہ امریکا نے افغانستان سے جانے کا با ضابطہ اعلان کیا ہے لیکن جیسا کہا جاتا ہے کہ چائے کی پیالی کے ہاتھ سے لبوں تک پہنچنے میں لرزشوں یا پھسل جانے کے کئی امکانات ہیں اور اس کا خدشہ تو ہمیشہ سے ہے کہ جو لوگ افغانستان میں امن نہیں چاہتے وہ ایسی ہر کوشش کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ افغانستان کے علاقے مزار شریف میں ایسی ناکام کوشش ہو گئی ۔ ایک خاتون بموں سے لیس پکڑی گئی ۔ ابھی اس کی تفصیل سامنے نہیں آئی لیکن ان سطور کے تحریر ہونے کے وقت تک یہی خبر تھی ۔ گویا امن عمل سبو تاژ کرنے کا آغاز ہو گیا ہے ۔ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کی اصل دلچسپی یہی ہے کہ افغانستان سے امریکی اور غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد کس کا کنٹرول ہو گا اور پاکستان کا اس میں کیا رول ہو گا ۔فی الحال یہ تاثر مل رہا ہے کہ پاکستان کی امن عمل میں کوششوں کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو رہاہے یعنی افغانستان میں عمل دخل کے حوالے سے ابھی تک پاکستانی کردار واضح نہیں ہوا ہے ۔ پاک فوج کے ترجمان نے حسب معمول رد عمل دینے میں جلدی کی اور یہ کہہ دیا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر پاکستان نے ذمے داری پوری کر دی ۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکا جنگ کے خاتمے میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کر کے جائے گا ۔۔۔ افغانستان میں امریکا کے17برس اور پاک امریکا تعلقات کے 60 برس امریکی دو رنگی اور منافقت سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ امریکا سے یہ امید بھی نہ رکھی جائے کہ وہ کوئی بات تسلیم کرکے جائے گا ۔ بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ افغانستان میں بد امنی کا تمام الزام پاکستان پر تھوپ دے۔۔۔ جیسا کہ حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی پاکستان میں موجودگی اور ان کی سرکاری سر پرستی کا الزام وہ بار بار لگاتا رہا ہے ۔ اول تو پاک فوج کے ترجمان کو یہ بیان برہ راست دینے کے بجائے دفتر خارجہ پر انحصار کرنا چاہیے تھا ۔ آج کل جو حکومت ہے اس میں یہ کام مشکل نہیں تھا ۔ جہاں تک داعش اور پاکستانی طالبان کا معاملہ ہے تو اس معاملے پر تو طالبان افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد خود روشنی ڈالیں گے کہ پاکستانی طالبان، پنجابی طالبان ،سندھی طالبان اور کراچی کے طالبان وغیرہ کی حقیقت کیا ہے اور داعش کس کی اختراع ہے ۔ ان باتوں پر تو اب کوئی یقین نہیں کرتا ۔خواہ سارا میڈیا صبح شام اس کی قوالی سناتا رہے ۔ پاکستانی قوم کو بھی افغانستان میں طالبان کی آمد کا بے چینی سے انتظار ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں افغانستان کی ٹیلی فون کالز پر پاکستان کا کوئی بھی شہری دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکے گا ۔ فی الحال تو ایک کال والا بھی دہشت گرد قرار پاتا ہے اس وقت طالبان کا جو انداز ہے وہ آنے والے بلکہ افغانستان کے حقیقی حکمرانوں والا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ایک حکومت دوسری حکومت سے مذاکرات کر رہی ہے ۔ افغان مذاکرات کاروں کی احتیاط بھی نہایت قابل غور ہے ۔ جدید سفارت کاری اسی کو کہتے ہیں ۔ دیکھیے اس بحران کا کیا حل نکلتا ہے ۔