متفرقات

256

پہ تماشا نہ ہوا: مرزا اسد اللہ خاں غالب نے کہا ہے:
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
حکومت نے ’’منی بجٹ‘‘ کا شوشا چھوڑا، میڈیا نے بھی کئی دنوں تک سماں باندھے رکھا، جیسے کوئی غیر معمولی واقعہ ظہور پزیر ہونے والا ہو۔ اپوزیشن نے اس مفروضے پر، کہ اشیائے صَرف کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگا، چھری کانٹے تیز کرلیے کہ منی بجٹ آتے ہی حکومت پر یلغار کریں گے، عوام پر مہنگائی کا پہاڑ توڑنے کی دہائی دیں گے، لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنے پالیسی سازی کے مرکز میں اپنے ہم خیال بیوروکریٹس کو جمع کر رکھا ہے، اُن میں اپوزیشن سے ہمدردی رکھنے والا کوئی نہیں رہا، اس لیے اندر کی بات باہر نہیں آرہی، ورنہ اپوزیشن حقیقی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کرتی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کے انتظامی اقدامات کے لیے منی بجٹ کا شوشا چھوڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی، ماضی میں اس کے لیے ایف بی آر وقتاً فوقتاً خصوصی انضباطی احکام یعنی SROs جاری کرتا تھا اور اس پر اتنا شور شرابا نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح کسانوں کے لیے مراعات یا نوجوانوں کے لیے اسکیم کا الگ سے اعلان کردیا جاتا تھا، ایسے امور کے لیے خصوصی بجٹ اجلاس بلانے کی کبھی کسی نے چنداں ضرورت محسوس نہیں کی۔
ہمارا حسنِ ظن تھا کہ حکومت چار چھ ماہ میں رموزِ مملکت کو سمجھ جائے گی اور اپوزیشن شور وغوغا کے انداز کو چھوڑ کر سنجیدگی کی طرف آئے گی، لیکن ابھی اس طرح کی کوئی علامات نظر نہیں آرہیں۔ شاید شور وشغب، مخالفین کی توہین وتذلیل اور نان ایشوز پر سیاست حکمراں جماعت کی فطرتِ ثانیہ بن گئی ہے اور اُس کے لیے اپنی ذہنی نہاد سے نکلنا دشوار ہورہا ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت کے عقاب یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس سیاسی کلچر کا چلن نہ رہا تو پارٹی سربراہ کی نظر میں ہماری ضرورت واہمیت ختم ہوجائے گی اور خدانخواستہ منصب بھی چھن سکتا ہے۔ لیکن ’’آبیل مجھے مار‘‘ والے کام وہی لوگ ڈھونڈتے ہیں، جن کے پاس کرنے کا کوئی کام نہ ہو، سو تاحال حکومتی ذمے داران کے پاس شاید کرنے کا کوئی کام نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا کارنامہ ہے جس کی زور شور سے مارکیٹنگ کی جائے۔
اصل شعبہ زبوں حال معیشت کا ہے جو آئی سی یو میں ہے، جنابِ اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم اُسے آئی سی یو سے نکال کر جنرل وارڈ میں لے آئے ہیں۔ لیکن بصد ادب گزارش ہے کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے، دوست ممالک کے معمولی شرحِ سود پر قرضے معیشت کے لیے وینٹی لیٹر نہیں ہیں تو اور کیا ہیں، کیوں کہ ان سے کوئی معاشی سرگرمی پیدا نہیں ہورہی ہے۔ اس کے برعکس پچھلی حکومت کے دور میں موٹر ویز بن رہے تھے، بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دھڑا دھڑ پاور پلانٹ لگ رہے تھے، اس میں کرپشن کا عنصر کس حد تک کارفرما تھا، ہمیں اس کا علم نہیں ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ زمین پر کچھ معاشی سرگرمیاں نظر آتی تھیں، جو اَب نہیں ہیں اور چہار سو سناٹا ہے۔
حکومت نے بڑے کاروباری طبقے کے لیے مُراعاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے، اِس سے کاروباری سرگرمیاں دوبارہ فروغ پاتی ہیں یا نہیں، اس کا اندازہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوسکے گا۔ اصل مسئلہ وہ خوف کی کیفیت ہے جو حکومتِ وقت اپنی بے تدبیری سے پیدا کرچکی ہے، اِس کا اثر بیورو کریسی اور کاروباری طبقات دونوں پر مرتب ہوا۔ حکومت جب تک اپنے مزاج اور مجموعی فضا کو تبدیل نہ کرے، بظاہر کامیابی کے آثار نہیں ہیں۔
مُصلحِ اعظم بننے کا شوق: ہمارا قومی مزاج ہمیشہ یا اکثر افراط وتفریط کا شکار رہتا ہے، توسُّط واعتدال شاید ہمارے مزاج کا حصہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جبر ہو تو ہم انتہائی حد تک دباؤ قبول کرلیتے ہیں اور آزادی مل جائے تو بحرِ بے کراں بن جاتے ہیں۔ چنانچہ ماضی میں ہماری عدالتیں ایک سے زائد بار مارشل لاکو سندِ جواز کے ساتھ آئین میں تبدیلی کے اختیار سے نواز چکی ہیں اور جنرل پرویز مشرف کو بن مانگے تین سال تک غیر آئینی اقتدار پر فائز رہنے کی سند بھی عطا کرچکی ہیں۔ پھر اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور آزاد عدلیہ کی تحریک برپا ہوئی، اس کے نتیجے میں جسٹس افتخار محمد چودھری اور عدالتِ عظمیٰ وعدالت ہائے عالیہ کے معزول عالی مرتبت جج صاحبان بحال ہوئے اور ہمارا نظامِ عدل عین قومی مزاج کے مطابق دوسری انتہا پر چلا گیا، اسی لیے آزاد عدلیہ تحریک کے سرخیل جناب اعتزاز احسن نے کہا: ’’اس تحریک کے نتیجے میں ہمیں متکبر جج اور متشدد وکلا ملے‘‘۔
سابق چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے پورے نظام کو اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لیا اور ایسا لگتا تھا کہ اُن کے جلال کے آگے دھرتی کانپ رہی ہے، فیض احمد فیض کی زبان میں دھڑ دھڑ دھڑکنے اور کڑ کڑ کڑکنے کا سماں تھا اور آخر میں خلقِ خدا کے راج کرنے کی بشارت تھی۔ خَلقِ خدا تو راج نہ کر پائی، لیکن عالی مرتبت جج صاحبان کے راج کی جھلک سب نے دیکھی۔ ہمیں اختیار مل جائے تو خدائی اختیار سے کم پر قناعت نہیں کرتے، شاید یہ انسان کی فطرت ہے۔ آئین وقانون میں ہر ادارے کا دائرۂ اختیار طے ہے، لیکن نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے کسی کو معمولی اسپیس مل جائے تو عرب کے اونٹ کی طرح آگے بڑھ کر باقی خلا کو وہ خود پُر کرلیتا ہے۔ ہمارے نظامِ عدل نے بھی یہی کارنامہ انجام دیا ہے۔ جنابِ جسٹس افتخار محمد چودھری نے رکوڈِک کے ذخائرِ زر کے بارے میں قانونِ بین الاقوام کی پروا نہ کرتے ہوئے آسٹریلیا کی کمپنی ٹیتھان کے ساتھ معاہدہ یک طرفہ طور پرختم کیا اور اب پاکستان کو بین الاقوامی عدالت سے بھاری جرمانے کا سامنا ہے، اسی طرح انہوں نے پاکستان اسٹیل کی نجکاری کو روکا تو اس کے بعد ایک روایت کے مطابق قومی خزانے سے دو سو ارب روپے پاکستان اسٹیل پر خرچ ہوچکے ہیں۔ اسی طرح لاہور کی اورنج لائن کو عدالتی حکم کے تحت روک لیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت میں بھی اضافہ ہوا، آخرمیں جسٹس جناب ثاقب نثار نے کہا: ’’یہ اہلِ لاہور کے لیے بہترین تحفہ ہے‘‘۔ ہمارے ہاں ایسا نظام نہیں ہے کہ ایسے اقدامات کے مابعد اثرات کا جائزہ لے کر کوئی ذمے داری کا تعین کرے تاکہ آئندہ کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم ہو۔
سابق چیف جسٹس جنابِ ثاقب نثار کو اچانک عالَمِ غیب سے اِلقا ہوا کہ پورے نظام کی اصلاح قدرت نے ان کے ذمے لگادی ہے اور وہ یہ سب کچھ کر کے جائیں گے، چنانچہ انہوں نے ہر شعبے میں ہاتھ ڈالا، نظام کو بعض صورتوں میں ساکت وجامد کردیا، ان کی ہیبت وشوکت کا عالَم دیدنی تھا۔ ایک عربی لطیفہ ہے: ’’ایک شخص نے مہمان کی دعوت کی اور آخر میں پوچھا: کیسی رہی، مہمان نے جواب دیا: ’’پانی کے سوا ہر چیز ٹھنڈی تھی‘‘، یعنی جو چیز ٹھنڈی ہونی چاہیے، وہ گرم تھی اور جن چیزوں کوگرم اور تازہ ہونا چاہیے تھا، وہ سرد تھیں‘‘۔ اگر جنابِ جسٹس ثاقب نثار نیچے سے اوپر تک نظامِ عدل کو درست کردیتے، تو ساٹھ فی صد نظام کی اصلاح ازخود ہوجاتی، لیکن انہوں نے اس بھاری پتھر کو ہاتھ تک نہ لگایا، چوم کر رکھ دینے کی نوبت تو بعد میں آتی، البتہ باقی تمام شعبوں میں براہِ راست دخل اندازی شروع کردی۔
اسپتالوں اور جیلوں پر میڈیا کے ہمراہ چھاپے، دودھ اور پانی کی تطہیر، ڈیم بنانا، آبادی کو کنٹرول کرنا، سیاست دانوں اور انتظامیہ کے ذمے داران کو لرزاں وترساں رکھنا، ہر چھوٹے بڑے معاملے پر ازخود نوٹس لینا اور آخر میں تمام یا اکثر چیزوں کا ناتمام رہ جانا، الغرض سب شامل ہیں۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 62-F کی دھمکی تو بہتوں کو دی، مگرجنابِ جہانگیر ترین کے علاوہ نفاذ صرف ایک جماعت کے افراد پر ہوا، بنی گالا کا مسئلہ بھی معلق ہی رہا، اعظم سواتی کی تجاوزات بھی قصۂ پارینہ بن گئیں۔ جنابِ جسٹس ثاقب نثار نے آخری دنوں میں نیب سے کہا: ’’لوگوں کی تذلیل نہ کرو‘‘، لیکن بصد ادب عرض ہے کہ وہ خود یہی کرتے رہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
مفتی منیب الرحمن
اومنی گروپ کے معاملات کے بارے میں ایسی فضا پیدا کی گئی، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ انہیں فوراً کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جائے گا، لیکن پھر گراف نیچے آگیا اور مقدمہ نیب کے حوالے کردیا گیا۔ الغرض چہار سو انہوں نے اپنی فعالیت اور تحرُّک کے جوہر دکھائے، لیکن اگر اس فعالیت سے کوئی شعبہ محروم رہا، تو وہ ان کا اپنا شعبہ تھا، جس میں اصلاح کی کوئی تدبیر نظر نہ آئی، یہاں تک کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو گلہ رہا کہ انہیں سپریم جوڈیشل کونسل میں دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی جائے، لیکن وہ اس سعادت سے محروم رہے۔ الیکشن قوانین کے برعکس انہوں نے انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد جنابِ شیخ رشید کے ہمراہ ان کے حلقے میں جاکر اسپتال بنانے کے احکام صادر فرمائے۔
شاید اُن کے لاشعور میں یہ بات تھی کہ انہوں نے اپنے اقدامات سے کئی شعبوں میں مداخلت کی ہے، اسے ہم اداراتی تجاوز سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، اسی لیے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے انہوں نے کہا: ’’میں نے کسی کے دائرۂ اختیار میں دخل نہیں دیا‘‘۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فرمایا: ’’جو کچھ میں نے کیا، اس پر مجھے کوئی خوف نہیں ہے‘‘۔ انہیں میڈیا میں آنے کا بھی بے انتہا شوق تھا، دنیا کی عدالتی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، نہ یہ ان کے منصب کے شایانِ شان تھا۔ کاش! وہ یہ ساری تگ ودو نیچے سے اوپر تک نظام عدل کی اصلاح کے لیے کرتے، جو دیمک زدہ اور بے فیض ہوچکا ہے، وہ ضابطۂ فوجداری اور ضابطۂ دیوانی کی اصلاح کے لیے سریع العمل قوانین بناتے تاکہ جلد اور فوری انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ ماتحت عدلیہ کے لیے چیک اینڈ بیلنس اور کارکردگی کا کوئی معیار مقرر کرتے۔ انہوں نے مابعد ریٹائرمنٹ جسٹس افتخار محمد چودھری کی بے قدری سے ہی اندازہ لگا لیا ہوتا کہ محض منصب کے بل پر ملنے والی عزت عارضی ہوتی ہے، دیرپا عزت کا سبب اخلاقی برتری ہوتی ہے، دوسرے کی تذلیل نہیں۔ چنانچہ موجودہ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے ان کے اعزاز میں منعقد ریفرنس میں اشارتاً کہاکہ وہ اپنی تمام تر توجہات اپنے شعبے پر مرکوز رکھیں گے، اسے ہم اُن کی طرف سے اپنے پیش رو کی کارکردگی پر ایک بامعنی تبصرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔