پاکستانی میڈیا کے ساتھ کیا ہورہا ہے یا پاکستانی حکمران میڈیا سے کس چیز کا انتقام لینا چاہتے ہیں یا پھر کوئی طاقت میڈیا اور حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس سوال کے جواب یا اس مسئلے کے حل کی تلاش کے چکر میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک قومی میڈیا کنونشن منعقد کیا۔ اس میں ملک بھر سے سیاسی رہنماؤں، صحافتی تنظیموں کے ذمے داروں، پریس کلبوں کے عہدیداروں اور حکومت و اپوزیشن کے نمائندوں کو بلایا۔ چار پرمغز سیشن ہوئے اور ہر سیشن میں میڈیا کے مختلف شعبوں حتیٰ کہ مارکیٹنگ کے ماہرین بھی شریک ہوئے۔ نہایت پرمغز تقریریں ہوئیں۔ ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ ہوا۔ اپنی اپنی مہارت اور تجربات ایک دوسرے کے سامنے رکھے گئے لیکن جب سیاستدان اور حکمران بات کرنے آئے اور بات کرکے گئے تو ایسا لگا کہ سب وہیں کھڑے ہیں۔ کم از کم وفاقی وزارت اطلاعات کی حد تک تو یقینی تاثر یہی ہے کہ گھڑوں پانی ڈالنے کے باوجود کوئی اثر نہیں ہوا۔ لیکن سب سے زیادہ دلچسپ چیز اس کنونشن کا درمیانی حصہ تھی جو چار سیشن کے درمیان آیا۔ اس میں صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی نے خطاب کیا۔ اگر وہ اپنی پارٹی کی وکالت یا اسے کچھ زیادہ نمبر دینے کی کوشش نہ کرتے تو ان کی تقریر بہت اچھی کہلاتی۔ نامعلوم کیا وجہ تھی کہ پوری تقریر کے دوران زور دار طریقے سے سر کھجاتے رہے۔ خیر اس کا سبب وہ جانیں۔ لیکن میڈیا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے زبردست تجویز دی کہ ملکی معیشت بہتر ہوگی تو میڈیا کو بھی اشتہارات ملیں گے۔ یہ واضح اعلان تھا کہ سی پی این ای کچھ بھی کہتی رہے اخبارات مرتے رہیں، حکومت وہی کرتی رہے گی جو کررہی ہے۔ یعنی کچھ نہیں کرے گی۔ گویا صدر صاحب بھی کمال کرتے ہیں اگر وزیر اطلاعات وزیراعظم اور دیگر وزرا کا انداز دیکھیں تو پتا چلے گا کہ سب کے سب اسی قبیلے کے لوگ ہیں یا حکومت ہی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ یارکو پہلو میں بٹھا کر صرف کمال کرتے ہیں۔ صدر صاحب نے ایک مصرعہ یاد دلادیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو ڈاکٹر جبار خٹک نے ڈرایا تھا بہت کھری کھری سنائیں گے لیکن انہوں نے تو کچھ بھی نہیں سنایا۔ یعنی اتنا سب کچھ سننے کے بعد صدر صاحب نے فرمایا کہ ’’بے مزا نہ ہوا‘‘۔ مزا آگیا اس جملے سے۔ سی پی این ای کے صدر، سیکرٹری اور اسٹیج سیکرٹری کی جانب سے حکومت کی نالائقی اور بدانتظامی کی نشاندہی کے باوجود حکومت کا کوئی نمائندہ بے مزا نہ ہوا۔ صدر مملکت کے خطاب کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات بھی تشریف لے آئے۔ ہمارے بالکل آگے والے صوفے پر تشریف فرما ہوئے۔ لیکن تشریف فرمانے کے فوراً
بعد وہ موبائل کے سحر میں گرفتار ہوگئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی باری آئی تو وہ سی پی این ای کے عہدیداروں کی گفتگو سننے کے بجائے اپنے موبائل پر پیغامات پڑھ کر اور جواب دے کر مسکراتے رہے۔ گویا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے بجائے سماجی میڈیا ہی اصل چیز ہے۔ وزیر اطلاعات بھی وہی بات کہہ رہے تھے کہ جب قومی معیشت میں پیسے آئیں گے تو آپ لوگ خود بخود خوشحال ہوجائیں گے۔ صدر مملکت اور وزیر اطلاعات کی گفتگو کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت اخباری صنعت کی مشکلات کا کوئی حل نہیں نکال سکتی۔ صدر صاحب فرما رہے تھے کہ جب میں بھارت جاتا تھا تو وہاں سے کتابیں لاتا تھا کیوں کہ وہاں کتابیں اور اخبار سستے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ایسا کیوں ہے۔ جناب صدر بھارت میں حکومت پرنٹنگ کی صنعت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اسکول کالج کی کتابیں اور اخبارات کی اشاعت میں حکومت تعاون کرتی ہے۔ اخباری کاغذ، پرنٹنگ مشینیں، روشنائی وغیرہ کی درآمد یا صنعت کو مدد فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان میں اخباری کاغذ کی قیمت 46 روپے سے 150 روپے تک پہنچ گئی، اس کا تو معیشت کی بہتری سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر حکومت پرنٹنگ سے متعلق اشیا درآمد کرے تو ڈیوٹی بچے گی اور اخبارات پر بوجھ کم پڑے گا۔ حکومتی بجٹ پر بوجھ نہیں پڑے گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک حکومت ہنی مون کی کیفیت میں ہے، ابھی تک زندگی کے معاملات چلانے کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا ہے۔ جہاں تک
وزیر اطلاعات کا تعلق ہے وہ بھی اب تک وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے دن کھڑے تھے۔ ان کے بارے میں شکیل ترابی کا تبصرہ بجا محسوس ہوا کہ۔۔۔ گل محمد کو تو کوئی زبردستی جنبش نہیں دے سکتا اور وزیر اطلاعات کی کیفیت یہ ہے کہ وہ 18 ویں ترمیم کی بات کررہے ہیں، کہتے ہیں کہ صوبوں کو اختیارات منتقل ہوگئے ہیں۔ آپ کے پیسے وہاں ہیں، اتنی رقم جاری کردی ہے یا فلاں چیک جاری کردیا گیا۔ اب ہم کچھ نہیں کریں گے۔ بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ درجنوں بار اخباری صنعت کے مسائل گوش گزار کرنے، اخبارات کے واجبات کے بارے میں پوری رپورٹ ثبوت کے ساتھ دینے کے باوجود وہ پہلے دن والا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ علاج کے 6 ماہ بعد بھی ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ’’جی اب ٹھیک ہوگیا ہوں باغبانی کروں گا درخت اُگاؤں گا، غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا۔۔۔ لیکن جناب درخت ہی لگادیں کسی کو سایہ ملے گا کسی کو لکڑی اور کسی کو پھل۔۔۔ آپ تو میڈیا ورکرز کے ساتھ کھڑے ہونے کا بیان دے دے کر بری الذمہ ہوگئے۔ لیکن میڈیا ورکرز کے ساتھ کھڑے ہو کر آپ نے کیا قدم اُٹھایا۔ بہرحال سی پی این ای کے اخباری صنعت کے مسائل کے حوالے سے قومی میڈیا کنونشن نے ایک نئی جہت اختیار کی ہے۔ اس کنونشن نے میڈیا اور اس سے متعلق ہر شعبے کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کیا اور اب اگر یہ دستہ ٹیک آف کرگیا تو عوام کے ملازم سرکاری افسران وہ بیوروکریس خادم بن جائیں گے حاکم نہیں رہیں گے اور وزرا بھی سماجی ویب سائٹس سے نکل کر سماج کا حصہ بن جائیں گے۔
(جاری ہے)